موجودہ بجٹ کے اعدادوشمار ان مسلسل گمراہ کن پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں معاشی اور سماجی صورت حال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ وفاقی حکومت کے12160ارب روپے کے متوقع ریونیو میں سے صوبوں کو 5276ارب کا حصہ مختص کرنے کے بعد، باقی رقم سود کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہے ۔ یہ صورت حال اسٹیٹ بینک کی انتہائی قابل اعتراض پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوئی، جو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے نام پر اتنی زیادہ شرح سود کو برقرار رکھتی ہے۔ نتیجتاً، پاکستان کو اپنی آمدنی کا 60 فیصد سود کی لاگت کے طور پر ادا کرنا ہے، جو دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف مہنگائی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں قیمتی سرکاری فنڈز کا بے انتہا ضیاع ہورہا ہے۔
لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ سود کی رقم باہر جا رہی ہے ، جبکہ 90 فیصد سود پاکستان کے اندر بینکس ، ان کے ڈپوزٹرز اور حکومت کے بانڈز خریدنے والوں کو دیا جا رہا ہے۔ اور اس کی رقم اسٹیٹ بینک کے پالیسی شرح سود پر منحصر ہوتی ہے۔ پاکستان کا اندرنی قرضہ تقریباّ 33 ہزار ارب روپے ہے اوراس پر 20 فیصد سود کی ادائگی 6600 ارب ہوگی۔ جس تیزی سے ہمارا قرض بڑھ رہا ہے، مستقبل میں ٹیکس کی وصولی کا تقریباً 90 فیصد سود میں جائے گا۔ ایک ایسی بوری جس میں اتنا بڑا سوراخ ہے کہ اس میں کچھ بھی نہیں رکے گا۔ ہم کرپشن، حکومتی اداروں کے اخراجات اور نا اہلی پرتو بہت بات کرتے ہیں لیکن یہ معاملہ ان سب چیزوں سے بہت بڑا اور خطرناک ہے، اس لیے بحیثیت قوم، ہمیں اسٹیٹ بینک کی ایسی احمقانہ مالیاتی پالیسی کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے، جس نے نہ صرف قیمتی سرکاری فنڈز کو ضائع کیا بلکہ معیشت کو بھی نقصان پہنچایا، برآمدات میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور روزگار کے مواقع کو کم کیا۔
سال کے شروع سے ہی منفی بجٹ کے باوجود، وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حیران کن طور پر30/35فیصد اضافہ کیا ہے۔ سماجی تحفظ اور بنیادی ڈھانچے (infrastruture) کی ترقی کے ذریعے عوام کی بہتری کے لیے اپنی ذمے داری پوری کرنے کے بجائے، حکومت، ٹیکس فنڈز اور قرضوں کی رقم کوغیر موثر طریقے سے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ملک کے آٹھ سے دس کروڑ غریب لوگوں کے لیے بجٹ کا صرف 3 فیصد رکھا گیا ہے جو فی کس صرف 300 روپے ماہانہ بنتا ہے۔ حکومت کی ان ترجیحات پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
حکومت بالواسطہ ٹیکسوں سے اپنی آمدنی کا50 فیصد سے زیادہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو معاشرے کے غریب طبقات کو بری متاثر کرتے ہیں۔ بقیہ کمی کو پورا کرنے کے لیے، وہ 7,573 ارب روپے کے مزید قرضے لیں گے، جس سے افراط زر اور مہنگائی کی صورت میں غریب عوام پر بے تحاشہ پوشیدہ ٹیکس (hidden tax) عائد ہوگا۔ اس بجٹ کو پچھلے سالوں کے بجٹ کی طرح صرف غیر سنجیدہ اور نقصان دہ قرار دیا جا سکتا ہے۔