سچ بات یہ ہے جو بات بھی کسی سے کہی جائے اس میں اس بات کا خیال ضرور رکھا جائے کہ وہ بات کس عمر والے سے اور کتنی سمجھ رکھنے والے سے کہی جا رہی ہے۔ اس بات کا خیال بھی بہت ضروری ہے کہ بات ایسی نہ ہو جس سے بالکل ویسے ہی معانی و مفاہیم نکلتے ہوں جیسا کہ آپ کسی کو سمجھانا یا بتانا چاہتے ہیں۔
بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کہ بازار سے دودھ کے دو دبے لادیں اور اس کے پاس اگر انڈے ہوں تو 6 لے آئیں۔ شوہر۔ بازار سے واپس آئے تو بیوی نے جب ان کا شاپر الٹا تو اس میں 2 کے بجائے 6 دودھ کے ڈبے دیکھ کر کسی قدر غصے میں آ گئی۔ ذرا اونچی آواز میں بولیں کہ میں نے آپ سے دودھ کے 2 ڈبے لانے کو کہا تھا آپ 6 کیوں لے آئے تو شوہر صاحب نے جواب میں کہا کہ اس کے پاس انڈے تھے۔ اب بیوی خواہ دل کو روئے یا جگر کو پیٹے، بات تو شوہر کی بھی غلط نہیں تھی۔
میرے ایک آفس کولیگ ہوا کرتے تھے۔ ایک دن بڑے مزے کا واقعہ سنانے لگے۔ کہنے لگے کہ میرے گردوں میں دکھن جب بڑھ گئی تو ڈاکٹر صاحب نے ایکسرے کا کہا۔ جب میں ایکسرے اور اس کی رپورٹ لے کر دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ایک گردے میں پتھری ہے جس کا سائز اچھا خاصہ بڑا ہے لہٰذا اس کو آپریشن کرکے ہی نکالنا پڑے گا۔ میرا عالم تو یہ تھا کہ انجکشن کی سوئی دیکھ کر ہی لرزا طاری ہو جاتا تھا اور کہاں ڈاکٹر صاحب چیرا پھاڑی کا فرما رہے ہیں۔ سوچا کہ کیوں نہ کسی حکیم کو ہی آزماؤں۔ چنانچہ میں ایک حکیم صاحب کے پاس گیا اور اس کے سامنے ساری صورتِ حال رکھ دی۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے کئی جڑی بوٹیوں کا انتخاب کر کے دو تین پڑیاں بنا کر مجھے ہدایت کی کہ ہر پڑیا خوب اچھی طرح پانی میں اُبال کر رات کو سونے سے پہلے اس کا قہوہ پی لیا کرنا۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے منقہ دینے کے بعد فرمایا کہ اس کو رات پانی میں بھگو کر صبح نہار منہ بیج نکال کر کھا لیا کرنا۔ اللہ نے چاہا تو آپریشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں ان کی ہدایت کے مطابق صبح ہی صبح اٹھ کر منقہ کے بیج نکال کر کھا لیتا اور منقہ چھوڑ دیا کرتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نوبت چیخنے چلانے تک جا پہنچی۔ نہایت تکلیف کے عالم میں حکیم صاحب کے پاس پہنچا اور کہا کہ حکیم صاحب روز منقہ کے بیج نکال نکال کر کھا رہا ہوں لیکن اب تو عالم یہ ہے کہ کسی کروٹ چین ہی نصیب نہیں۔ ویسے قصور حکیم صاحب کا بھی ہے کہ انہوں نے منقہ کے بیج نکال کر ہی تو کھانے کا کہا تھا۔
کہتے ہیں کہ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے لیکن اشارہ عقل مند کے لیے ہی کافی ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں سخنور بہت کمال کے ہوتے ہیں، غلط تو نہیں کہتے لیکن سخنوری کا فہم رکھنے والے کیا کم کمال کے ہوتے ہیں۔ میرے کئی رشتے دار اور خود میری والدہ و والد، ان میں سے کوئی بھی سخنور یعنی شاعر نہیں تھا لیکن کیا بلا کی سخن فہمی کے مالک تھے۔ اشعار کے اوزان، ان کے الفاظ میں پوشیدہ معانی، تلفظ، الفاظ کی اونچ نیچ اور نکتے کی باتیں، شاید وہ سخنوروں سے بھی کہیں زیادہ سمجھتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے ایک دوست نے بڑے فخر کے ساتھ ایک شعر مجھے سنایا تو وہ مجھے بھی بہت اعلیٰ لگا۔ شعر کچھ یوں تھا کہ
جب چاہا ہم نے وقت کے تیور بدل دیے
ہم خود زمانہ ساز ہیں ہر اعتبار سے
یہی شعر میں نے اپنی والدہ کو سنایا اور کہا کہ مجھے یہ شعر بہت ہی پسند آیا اور میں نے اس کی بہت ستائش کی۔ سن کر عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کچھ تبصرہ کیے بغیر خاموش ہوگئیں تو مجھے کچھ شک گزرا۔ میں نے وضاحت چاہی تو کہنے لگیں کہ ایک مشاعرے میں ایک شاعر نے جب یہ شعر پڑھا کہ
در سینہ نصیرالدین جز عشق نمی گنجد
ایں طرفہ تماشابیں دریا بہ حباب اندر
تو مشاعرے میں شریک ایک سامع بہت اچھل اچھل واہ واہ کا شور مچا رہا تھا۔ لوگ اسے جانتے تھے کہ وہ ایک عام سا آدمی ہے، اسے اردو صحیح طریقے سے سمجھ میں نہیں آتی تو فارسی کیسے سمجھ میں آ گئی۔ پوچھا کہ تم کیا سمجھ کر اتنی داد دیے چلے جا رہے ہو، جواب ملا کہ کیا شاندار منظر ہو جب شاعر کو دریا میں بہتا ہوا بندر نظر آ رہا ہوگا۔
بات تو امی جان کی بے شک بہت گہری رہی ہوگی، مجھ کوتاہ عقل کو کیا سمجھ میں آتی۔ مجھے جزبز دیکھ کر خود ہی گویا ہوئیں کہ ’’زمانہ ساز‘‘ کا مطلب زمانہ بنانے والا نہیں ہوتا، چال باز، عیار، مکار اور دھوکے باز کا ہوتا ہے۔
اردو اور اس کی نزاکتوں کے بہت خوبی کے ساتھ سمجھنے والے ایک ساتھی میرے گھر تشریف لائے۔ مجھ جیسے اچھی اردو کے چند الفاظ یا جملے سیکھ لینے والے، آئیں، تشریف لائیں، قدم رنجہ فرمائیں جیسے چند الفاظ یا جملے بول کر کسی کو مرعوب کرنے والے نے جب ان کی خدمت میں کھانے پینے کی چند چیزیں رکھیں تو ساتھی نے کہا کہ آپ بھی تو لیں جس پر میں نے نہایت عاجزی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ آپ کھائیں، ہم تو کھاتے ہی رہتے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا اور کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ اس کا کیا مطلب ہوا۔ میں سہم گیا کہ شاید کچھ غلط بول گیا ہوں۔ وہ سمجھ گیا کہ میں واقعی ناسمجھ ہی ہوں، اس کے اعضا کچھ ڈھیلے ہوئے تو کہا کہ مجھ سے تو خیر پرانی واقفیت ہے لیکن کبھی کسی انجانے سے یہ کبھی نہ کہنا۔ وہ تو گھر سے رخصت ہو گیا لیکن میں آج تک اس سوچ میں غرق ہوں کہ جو میں نے کہا تھا اس میں آخر غلط کیا تھا۔