عید الاضحی کی مبارک بادقبول کریں۔اُمید کرتا ہوں کہ ذی الحجہ کی بابرکت وعظیم پہلی دس راتیں ایمان و عمل کے ساتھ گزاری ہوں گی۔رب کریم آپ کی تمام عبادات قبول فرمائے۔طباعت کے مسائل ، سرکاری چھٹیوں اور کئی اہم ایشوز کی زیادتی کی وجہ سے ہماری تحریر گذشتہ سے پیوستہ چل رہی ہے۔
کراچی کی میئر شپ کے معاملے پر 15 جون سے شروع ہونے والا ’مینڈیٹ چور‘ کا شور پورے ملک میں گونجتا نظر آیا۔ 23جون کواسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے باہر جماعت اسلامی کی قیادت نے زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا،سندھ ہائی کورٹ نے معاملہ دو ماہ آگے ڈال دیا۔پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب 15 جون کوسٹی کونسل کے ایوان میں دستیاب ارکان کے زیادہ ووٹ لیکرکامیاب ہوگئے ۔ عدد ی لحاظ سے 192 ارکان کی حمایت رکھنے والے جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن اپنی حلیف جماعت کے 31 ارکان کی غیر حاضری کی وجہ سے اُس دن کامیاب نہ ہوسکے۔اس ممکنہ غیر حاضری کے معاملے کو وہ مستقل ہفتہ بھر تمام میڈیا پر نمایاں کرتے رہے اور اس موثر انداز سے کیا کہ 15 جون کے بعد ہم نے دیکھا کہ اِنکا بیانیہ غیر معمولی طور پرمقبول ہوگیا۔اہم بات یہ ہے کہ غیر حاضر ارکان کے کئی وڈیو بیانات کے باوجود تمام ٹی وی چینلز کے معروف اینکرز نے یہ سوال پیپلز پارٹی سے کرنا ضروری سمجھ لیا کہ تحریک انصاف کے لوگ کیوں نہیں آئے ؟ کیسے غائب ہوگئے؟ اس کا کیا سبب ہے؟ سوشل میڈیا پراس معاملے کو لیکر کئی میمز بنیں، پیپلز پارٹی باوجود ڈھیروں کراچی کی بہتری کے عزائم کے ،خاصا دفاعی نظرآئی۔مینڈیٹ چور، چلو چلو سلیکشن کمیشن چلو، سلیکٹڈ میئر حاضر ہو، الیکشن کمیشن ہم آرہے ہیں،پی پی فیوڈلز ایکسپوزڈ، کراچی ریجکٹس سلیکٹڈ میئر، بلیک ڈے، سمیت کئی ٹرینڈز تواتر سے چلائے گئے۔جماعت اسلامی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ، عدلیہ ، احتجاج ، مزاحمت، الیکشن کمیشن، عوام سمیت سارے آپشن پر کام کر رہی ہے۔ان سب سے پریشان ہوکرسندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن ، نے اسمبلی میں یہ تک کہہ دیاکہ ’جماعت اسلامی ٹرینڈ چلانا بند کرے۔‘ ظاہر ہےکہ یہ جملہ ایک طرف یہ پیغام بھی دے رہا تھاکہ پی پی کو اس عمل سے سخت چبھن ہو رہی ہے ، تو دوسری طرف وہ اس عمل کو بھی چیلنج لے کر سوشل میڈیا کے میدان میں پوری قوت سے اترنا چاہ رہے ہیں.بحرِاوقیانوس میں 18 جون کوجانے والی آبدوز تباہ ہوگئی جو111سال قبل اِسی سمندر میںڈوبنے والے بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کودیکھنے کے لیے نکلی تھی ۔یہ آبدوز اپنے مالک اورمزید 4امیر ترین مسافروں کےساتھ نا معلوم وجہ سے تباہ ہوگئی۔ مجھے حیرت جب ہوئی جب اسکی تلاش کے اُمور میں شامل ایک ماہر ڈیوڈگیلو کو کہنا پڑ گیا کہ ’ہمیں معجزے کی ضرورت ہے‘، مطلب یہاں ساری جدید سائنس، ترقی، ٹیکنالوجی کا غلغلہ ختم اور ـ’ سی این این‘ پر ایک ایسی سرخی لگا کر وہ چیز طلب کی جانےلگی جس کے وجود کا انکار کرکے ہی یہ ساری سائنسی ترقی کھڑی کی گئی تھی۔ویسے ٹائی ٹینک کے بارے میں بھی 111 سال قبل اس سے ملتی جلتی بات کی گئی تھی کہ یہ جہا ز کبھی نہیںڈوب سکتا۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔سورۃ بنی اسرائیل ،سورۃ العنکبوت میں اس سے ملتے جلتے عمل کی جانب اشارہ ہے۔مگر اس میں موضوع ناشکری ہے۔’’اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔‘‘سوشل میڈیا پر مستقل اس ایشو کو ڈسکس کیا جاتا رہا۔ایک پیج نے تو مشہور کارٹون سیریز ’سمپ سنز ‘ میں ہونے والے ایسے ہی ایک سین کو بطور ’’پیش گوئی /پلاننگْ سازش‘‘ کی لالی پاپ قرار دے کر خوب لائک و ویوز سمیٹے۔لوگوں کو بھی مزا آتا ہے ان چکروں میں۔سیدھا سادا حادثہ ہے جوٹائی ٹینک کو بھی پیش آگیا تو اس کے کچرے کو دیکھنے جانے والی آبدوز کے ساتھ بھی ہو گیا ۔ بات ختم کرو، آگے بڑھو۔یہ سوچو کہ کیا جمع شدہ پیسہ اس طرح خرچ کرنا ہےاور یہ سارا ٹیکنالوجی کا غلغلہ ایک دھوکہ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔جس چیز میں قطعیت ہی نہیں ،کوئی چیز حتمی نہیںتو کیوں اِس پر اتنا انحصار کیا جائے؟
سوشل میڈیا پرہر قسم کے تبصرے تھے ،کچھ پاکستانی اداکاروں نے بھی ( درست مذاق اڑاتے ہوئے) چند جملے کسے تو جب اس پر سوشل میڈیا رد عمل آیا تو معافی و معذرت بھی کرلی۔وہ مذاق کیا تھا ، درست کیوں تھا یہ بھی سمجھ لیں۔جو لوگ 35 لاکھ روپے دےکر ، یورپی ممالک میں جاتے ہیں ، اُن کی فکر ، سوچ کیا ہوتی ہے ماسوائے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے، وڈیوز، انٹرنیٹ ، فلموں ، ڈراموںکے ذریعہ دکھائی گئی جھوٹی ، پرفریب دنیا کو وہ حقیقت بلکہ جنت کے مانند سمجھ کر جاتے ہیں۔مشہور موٹی ویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ نے تو اس موضوع پر وڈیو بنا کر بتایا کہ 22 لاکھ روپے میں باہر جانے کے بجائے یہاں آپ کیا کیا باعزت کام کرسکتےہیں؟مطلب ٹائیٹین اور کشتی ہر حوالےسے خاصا موضوع بنے رہے۔بات یہ ہے کہ یورپ کی چمک دمک کے دھوکہ میں گرفتار لوگ وہاں پہنچ کر جس ذلت کے ساتھ ،چھپ چھپ کر ، وقت گزارتے ہیں وہ بیان کرنے میںانتہائی تکلیف دہ ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ جتنے بھی ایسے ہیومن اسمگلنگ کے نیٹ ورک ہیں ،وہ سب انسانوں کو بھیڑ بکری سے بھی بدتر جان کراذیت ناک ومشکلات بھرے رستوں سے گزارتے ہیں جس میں زندگی موت ساتھ ساتھ چلتی ہے اور یہ سب لوگ مکمل طور پر اسمگلرز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ہیومن ٹریفکنگ ، ریاستوں کی جغرافیائی حد بندیوں کے بعد سے شروع ہونے والابہت پرانا کام ہے۔اس کو سادہ لفظوںمیں کہیں تو رستے کی رہنمائی ہے۔یہ رستہ زمینی و آبی دونوں ہوتے ہیں۔ 1971 میں اور 1947 میں بھی کئی لوگوں نے جان بچانے کی خاطر ہجرت میں اِن سے با معاوضہ خدمت لی۔یہ آسان کام نہیں ہوتا خصوصاً اُن سرحدوں پر جہاں ممالک دشمن ہوں۔پاکستان سے زمینی راستہ ایران تک ، ایران سے ترکی تک جاتا ہے ۔ترکی کے بعد پھر زمینی و آبی تمام رستے ہیں۔اب یہ ساری تکلیف ’باہر جانے‘ کے نام پر وہ لوگ ایک ایسے انجان مستقبل کے لیے سہتے ہیں جو اُنہیں کسی ہوٹل میں ویٹر، ڈش واشر، جمعدار، گارڈ، پیٹرول پمپ یا کسی دکان پر معمولی سی مگر سخت نوکری سے شروع ہوتا ہے۔اس موضوع پر عائشہ غازی اپنی وال پر اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں لکھتی ہیںکہ ،’جہاں یہ غیر قانونی تارکین وطن پہنچتے ہیں وہاں پھولوں کے ہار اور جاب کے اپائنٹمنٹ لیٹر اُن کے استقبال کے لئے موجود نہیں ہوتے ۔ اگر یہ بارڈر پولیس کے ہاتھ آجائیں تو اُن کا مار مار کر وہ حال کیا جاتا ہے کہ پہچاننا مشکل ہو جائے۔سمندری راستے سے پکڑےجانے والوں کو یونان کے جن کیمپوں میں رکھا جاتا ہے ، اُس میں پاکستان میں تیس لاکھ تو کیا ایک لاکھ رکھنے والا بھی اس حال میں نہیں رہتا۔ پھر اس مہمان نوازی کے بعد اِن پاکستانیوں کو واپس پاکستان بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ عالمی اصولوں کے مطابق پاکستان میں ایسے حالات نہیں ہیں جن پر اسائلم ( پناہ) کی درخواست بن سکے ۔ اگر یہ بارڈر پرنہ پکڑے جائیں تو چوروں کی طرح وقت گزارتے رہتے ہیں ۔ نہ تو انہیں اُن ممالک میں کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔نہ رہنے کی ۔اس لئے کہیں پولیس کا سایہ بھی نظر آ جائے تو انہیں بھاگنا پڑتا ہے اور انتہائی کم اجرت پر انتہائی محنت طلب کام کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ یا تو پاکستان پر کوئی مکروہ الزام لگا کر انہیں ( پناہ) مل جائے یا پھر 15-20سال ایسے ہی چھپتے چھپاتے گزارنے کے بعد ان کو رہنے کے حقوق مل جائیں یا کوئی یورپی خاتون اُن کے جال میں آ جائے جس کی بنیاد پر یہ شہریت کے لئے اپلائے کر سکیں ۔ عام طور پر شہریت ملتے ہی یہ لوگ ایسی یورپین خواتین کو حیران و پریشان روتا چھوڑ کر اپنے ملک بھاگتے ہیں جہاں کوئی خالہ ماموں پھوپھی کی بیٹی کئی برسوں سے ان کی منتظر بوڑھی ہو رہی ہوتی ہے ۔
چوتھا یہ ہے کہ ان میں سے وہ بھی ہیں جنہیں اتنا رسک لینے کے بعد بھی قسمت شارٹ کٹ آفر نہیں کرتی۔ ان کو نہ اسائلم ملتا ہے نہ کوئی لڑکی ۔ یہ وہ ہیں جو پھر سالہا سال چکی میں گیہوں کی طرح پستے ہیں ۔ گھر والوں کو بتا نہیں سکتےکہ کس حال میں ہیں کیونکہ گھر والوں نے پورے خاندان میں اپنی دھاک بٹھائی ہوتی ہے کہ بیٹا باہر ہے اور وارے نیارے ہیں اور اگر کبھی برے حالات میں گھر والوں سے ذکر کر بھی دیں تو واپس آنے کی اجازت نہیں ملتی ، انہیں یہی بتایا جاتا ہے کہ تم آ گئے تو سب بھوکے مر جائیں گے کیونکہ گھر والوں کو فری مال کا نشہ لگ گیا ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کو میں نے لندن کی گلیوں میں دسمبر کی سخت سردی میں پُلوں کے نیچے یا بس سٹاپ کے بنچ پر سوئے دیکھا ہے جو لوگوں کی پھینکی ہوئی رضائیاں اٹھا کراپنی سردیاں گزارتے ہیں۔ کچھ وہ بھی ہیں جو انتہائی کم اجرت پر کسی دکاندار کے ہاتھ غلام بن جاتے ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنی دکانوں میں رات رہنے کا ٹھکانہ دے دیتے ہیں ۔ یہ ایسا چنگل ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں یہاں تک کہ پولیس کے چھاپے میں پکڑے جائیں اور پولیس انہیں زبردستی ان کے ملک واپس بھیج دے ، جہاں اِن کی اب کوئی جگہ نہیں رہی۔ گھر والوں کو جن کی “باہر کی کمائی ” کی عادت پڑ جائے ، پھر بغیر کمائی کے ان کا بوجھ کون اٹھانا چاہتا ہے ۔ ان لوگوں کو ساری جوانی پردیس میں چکی پیس کر پیچھے والوں کو پالنے کے بعد اگر شہریت مل ہی جائے تو پہلا کام یہ پاکستان جانے کی ٹکٹ لینے کا کرتے ہیں اور جاتے ہی ملنے آنے والے ان سے پہلا سوال یہ کرتے ہیں “واپسی کب ہے ؟” اس کہانی کا ہر ورق دکھوں سے بھرا ہے، خدا کے لیئے اپنے عزیزوں کو ایسے فیصلے کرنے سے روکیں، چاہے جیسے بھی روکنا پڑے ۔ پاکستان آئیڈئل نہ سہی ، لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے بدلے موت یا ذلت میں سے کسی ایک کو چنا جائے۔