کراچی پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان

1208

کراچی کے میئر کے انتخابات میں حافظ نعیم الرحمن کے 9 لاکھ ووٹ پیپلز پارٹی کے 3 لاکھ ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ حافظ نعیم الرحمن کے 192 ووٹ پیپلز پارٹی کے 173 ووٹوں کے سامنے پسپا ہوگئے۔ یہ ظلم اور جبر کی انتہا ہے۔ یہ صرف پیپلز پارٹی کی فسطائیت نہیں ہے یہ اسٹیبلشمنٹ کی فسطائیت بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی سیاسی قیادت نہیں کررہی۔ ملک کے تمام فیصلے اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے۔
کراچی کی تاریخ میں کراچی پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں ان میں جرنیلوں کا مرکزی کردار ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی مرکز تھا۔ کراچی ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ تھا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز تھا۔ کراچی میں ملک کا واحد بین الاقوامی ہوائی اڈہ تھا۔ کراچی شہر قائد تھا۔ چناں چہ قائداعظم نے کراچی کو ملک کا دارالحکومت ہونے کا اعزاز بخشا۔ مگر جنرل ایوب نے کراچی کی پوری تاریخ پر تھوک دیا۔ انہوں نے اسلام آباد کو ملک کا دارالحکومت بنادیا۔ اسلام آباد نہ ملک کا صنعتی مرکز تھا، نہ اس کی کوئی تجارتی حیثیت تھی، اسلام آباد کا کوئی تاریخی پس منظر تک نہ تھا۔ اسلام آباد کو جنرل ایوب عدم سے وجود میں لائے تھے۔ یہ کراچی کے ساتھ ظلم تھا۔ جنرل ایوب نے کراچی کے ساتھ دوسرا ظلم محترمہ فاطمہ جناح کی تذلیل کے ذریعے کیا، مادرِ ملت کا مرکز کراچی تھا۔ مادرِ ملت نے جنرل ایوب کی فسطائیت کو چیلنج کیا تو جنرل ایوب نے ملک کے بڑے بڑے اخبارات میں نصف صفحے کے اشتہارات شائع کرائے۔ ان اشتہارات میں مادر ملت کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ یہ اچھا ہی ہوا قائداعظم 1948ء میں انتقال کرگئے۔ ورنہ قائداعظم بھی جنرل ایوب کو چیلنج کرتے تو جنرل ایوب انہیں بھی بھارتی ایجنٹ قرار دے دیتے۔ جنرل ایوب کی فوجی حکومت نے کراچی کے ساتھ تیسرا بڑا ظلم یہ کیا کہ چونکہ کراچی نے صدارتی انتخاب میں مادر ملت کو فتح یاب کرایا تھا اسی لیے جنرل ایوب نے کراچی میں پہلا مہاجر پٹھان فساد کرا دیا جس میں درجنوں لوگ مارے گئے۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو وہ پہلے دن سے کراچی دشمن پارٹی ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جس کے لسانی بل نے سندھ میں سندھی مہاجر کی تفریق پیدا کی۔ جس نے سندھی زبان کو قومی زبان اردو کے مقابل لاکھڑا کیا۔ یہ سراسر ایک شیطانی کھیل تھا۔ پاکستان کی تخلیق کی دو ہی بنیادیں ہیں۔ ایک اسلام اور دوسری اردو۔ اسلام نہ ہوتا تو پاکستان نہ ہوتا اردو نہ ہوتی تو بھی پاکستان نہ ہوتا۔ مگر پیپلز پارٹی کی اندھی لسانیت پرستی نے سندھی کو اردو کے مقابل لاکھڑا کیا۔ حالاں کہ اردو اور سندھی میں تصادم کی کوئی بنیاد ہی نہ تھی۔ پیپلز پارٹی نے دوسرا بڑا ظلم پورے شہری سندھ بالخصوص کراچی پر ہی کیا کہ اس نے صوبے پر کوٹا سسٹم مسلط کردیا۔ ابتدا میں اسی کوٹا سسٹم کا جواز تھا۔ سندھی نوجوانوں میں تعلیم کم تھی اور وہ تعلیم یافتہ مہاجر نوجوانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ انہیں دس پندرہ سال تک کوٹا سسٹم کا حصار مہیا کرنا ضروری تھا مگر اس سسٹم کو عارضی ہونا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی نے کوٹا سسٹم کو تقریباً دائمی بنا دیا ہے۔ یہ شہری سندھ بالخصوص کراچی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ ظلم ہے۔ بدقسمتی سے دوسری سیاسی طاقتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کے سلسلے میں بھی پیپلز پارٹی کی تاریخ شرمناک ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ ملک کی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے جنرل یحییٰ کے ساتھ مل کر سازباز کی اور پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار مساوات نے بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے حوالے سے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگادیا۔ بھٹو نے صاف کہا کہ اگر مغربی پاکستان کے کسی منتخب نمائندے نے شیخ مجیب الرحمن کی جانب سے طلب کیے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ بھٹو نے 1977ء کے انتخابات سے بھی حزب اختلاف کی جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا اور انہوں نے درجنوں حلقوں میں دھاندلی کروا کر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب قرار دلا دیا۔ چناں چہ اس کے ردعمل میں پی این اے وجود میں آئی اور اس نے بھٹو کی فسطائیت کو چیلنج کیا۔ بھٹو پر دبائو بڑھا تو بھٹو نے پی این اے کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ ہمیں جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر پروفیسر غفور احمد نے خود بتایا کہ بھٹو نے 30 سے زیادہ قومی اسمبلی کے حلقوں میں دھاندلی تسلیم کرکے دوبارہ انتخابات کرانے پر آمادگی ظاہر کردی تھی مگر جنرل ضیا الحق درمیان میں کود پڑے اور بھٹو کی دھاندلی اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی پی این اے کی تحریک بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک لے گئی۔
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے کراچی کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ جنرل ضیا الحق نے سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی میں جماعت اسلامی کو کمزور کرنے کے لیے الطاف حسین کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم بنا کر کھڑا کردیا۔ مہاجر مذہب پرست تھے، الطاف حسین نے انہیں سیکولر بنانے کی سازش کی، مہاجر معاشرے کا مہذب ترین طبقہ تھے، الطاف حسین نے ان کے ہاتھ میں ہتھیار پکڑا دیے، مہاجر میرٹ پرست تھے الطاف حسین نے مہاجر نوجوانوں کو نقل کی لت ڈالی۔ مہاجر تعلیم یافتہ تھے الطاف حسین نے انہیں بھتا خور بنایا۔ مہاجر پاکستان بنانے والے تھے الطاف حسین نے انہیں پاکستان سے بدظن کیا۔ کراچی میں کوئی مہاجر پٹھان کشمکش موجود نہ تھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین کو مہاجر رہنما بنانے کے لیے کراچی کے ایک علاقے میں مہاجر کش حملہ کرایا۔ مبینہ طور پر پٹھانوں کے ایک گروہ نے ایک مہاجر بستی میں گھس کر چھے گھنٹے تک قتل عام کیا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے چھے گھنٹے تک علاقے میں داخل ہی نہ ہوسکے۔ کراچی میں سندھی مہاجر کشمکش بھی موجود نہ تھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے یہ کشمکش بھی پیدا کی۔ کراچی کے ایک بڑے اخبار میں یہ خبر شائع کرائی گئی کہ سندھ نیشنل الائنس کا ایک جلوس کراچی کے علاقے صدر سے گزر رہا تھا کہ ایک مہاجر خاتون کی کار جلوس میں پھنس گئی۔ مہاجر خاتون کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔ خبر میں بتایا گیا کہ سندھ نیشنل الائنس جلوس کے شرکا نے مہاجر عورت اور اس کے بچے کو مار ڈالا۔ سندھی اخبارات میں یہ خبر شائع کرائی گئی کہ کراچی کے ایک بڑے سرکاری اسپتال میں 9 سندھی خواتین کی لاشیں لائی گئی ہیں۔ ان لاشوں کو مسخ کیا گیا تھا۔ صحافیوں نے ان دونوں واقعات کی تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ یہ دونوں واقعات سرے سے ہوئے ہی نہیں۔
کراچی کے ساتھ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کراچی ملک کو اس کی آمدنی کا 70 فی صد کما کر دیتا ہے مگر وفاق کراچی کو 70 روپے میں 5 روپے بھی دینے کے لیے تیار نہیں۔ سندھ صوبے کی حیثیت سے اگر سال میں سو روپے کماتا ہے تو کراچی اسے 95 روپے کما کر دیتا ہے مگر سندھ کراچی پر 10 روپے خرچ کرنے کا بھی روادار نہیں۔ چناں چہ مسائل کے انبار میں دبا ہوا ہے۔ کراچی کو یومیہ 1200 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے مگر کراچی کو یومیہ صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم ہورہا ہے۔ چناں چہ آدھا کراچی پانی جیسی بنیادی سہولت کو ترس رہا ہے اور شہر پر ٹینکر مافیا راج کررہی ہے۔ کراچی میں یومیہ 11 سو ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس کا چالیس فی صد ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔ چناں چہ کراچی ایک بڑی کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہے۔ کراچی کی بیش تر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور موٹر ایبل نہیں ہیں۔ کراچی میں نکاسی آب کا نظام پچاس سال پرانا ہے اور شہر میں جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں زمین دوز ریلوے کا نظام موجود ہے کراچی ایسے نظام سے محروم ہے۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں بڑی بسوں کے بیڑے موجود ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کی آبادی تک پوری نہیں گنی جاتی۔ کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زیادہ ہے اور گزشتہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ظاہر کی گئی ہے۔ حال ہی میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 90 لاکھ گنی گئی ہے۔ اس طرح کراچی کی ایک سے ڈیڑھ کروڑ آبادی پھر شمار ہونے سے رہ گئی ہے۔
اسی تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر کراچی کی ’’سیاسی ضرورت‘‘ نہیں ’’وجودی ضرورت‘‘ ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی نے کراچی کو ’’کلین اور گرین‘‘ بنادیا تھا۔ انہوں نے شہر میں قلت آب کے مسئلے پر بھی بڑی حد تک قابو پالیا تھا۔ میئر افغانی کے طویل دور میں ایک پیسے کی کرپشن بھی رپورٹ نہیں ہوسکی تھی۔ نعمت اللہ خان نے جب کراچی کی میئر شپ سنبھالی تو بلدیہ کراچی کا بجٹ صرف 7 ارب روپے تھا۔ نعمت صاحب نے کوئی ٹیکس لگائے بغیر اس بجٹ کو 42 ارب تک پہنچادیا۔ نعمت صاحب نے چار سال میں ایک درجن سے زیادہ کالج قائم کیے۔ امراض قلب کے ادارے بنائے۔ شہر کو 40 سے زیادہ پارکوں کا تحفہ دیا۔ کراچی کے لیے پانی کے منصوبے کے تھری کو مکمل کیا۔ نئے منصوبے کے فور کی بنیاد رکھی۔ نعمت صاحب نے 42 ارب روپے کا بجٹ دیا مگر ان پر ایک پیسے کی کرپشن کا الزام نہ لگ سکا۔ پیپلز پارٹی کراچی کو کچھ دے سکتی تو پچاس سال میں دے چکی ہوتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی نے حافظ نعیم کا راستہ روک کر کراچی کے گلے پر پائوں رکھ دیا ہے۔