سانحہ یونان اور ابن آدم

776

اے ابن آدم یہ جو سانحہ یونان میں ہوا یہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ماضی میں اس طرح کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ یہ سانحہ اس لیے اہم ہے کہ اس میں میرے ہم وطنوں کو اپنی جان دینی پڑی، انسانوں کے سوداگر تو کئی سال سے انسانوں کی تجارت کررہے ہیں۔ ایک معاصر اخبار نے تو ایک بہت بڑی اسٹوری بھی چلائی تھی کہ کس طرح سے یو اے ای میں خوب صورت لڑکیوں کو نوکری کی لالچ میں لے جا کر وہاں فروخت کیا جاتا ہے پھر ایک نیا گروپ سامنے آیا وہ یہاں سے شادی کرکے لڑکی کو لے جاتے اور دبئی میں کسی بھی امیر شیخ کے ہاتھوں فروخت کردیتے۔ جس دن یہ کشتی کا حادثہ ہوا اُسی دن میکسیکو میں تارکین وطن سے بھرا ہوا ٹرک برآمد ہوا جس میں ٹرک کے پچھلے حصے میں 129 تارکین وطن برآمد ہوئے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مائیگریشن نے ہفتہ کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ برآمد ہونے والے افراد کا تعلق بھارت، گوئٹے مالا، ہونڈوراس، ایل سلواڈور سے ہے۔ حکام کی یہ کارروائی مشرقی ریاست ویراکروز میں ہوئی، گرمی کی لہر کی وجہ سے 8 تارکین وطن ہلاک ہوگئے، اُن میں سے 51 تارکین وطن کو اُن کے ملک واپس کردیا۔ 19 نابالغوں کو ایک اسپتال میں شفٹ کردیا گیا، باقی کو ہجرت کے اسٹیشن منتقل کردیا۔ ہزاروں تارکین وطن جن میں سے بہت سے اپنے ہی ممالک میں غربت اور تشدد سے بھاگ رہے ہیں۔ امریکا پہنچنے کی امید میں روزانہ پاکستان سمیت کئی ترقی پزیر ممالک میں لوگ بے روزگاری کی وجہ سے اس طرح کے حادثات کا شکار ہوئے۔ لیبیا سے غیر قانونی تارکین وطن کو اٹلی لے جانے والی کشتی میں 750 افراد کو زبردستی ٹھونسا گیا تھا۔ کشتی میں 250 سے 300 افراد کی گنجائش تھی سب سے زیادہ جاں بحق ہونے والے میرے اپنے پاکستانی بہن بھائی اور بچے تھے۔ اس کے علاوہ 200 مصری اور 150 شامی بھی تھے۔ اٹلی جانے والوں کی کشتیاں پہلے بھی سمندر میں غرق ہوتی رہی ہیں جن میں بے گنتی لوگ ہلاک ہوتے رہے جن میں پاکستانی تارکین وطن بھی مارے گئے مگر انسانی اسمگلروں کے گروہ اتنے بااثر ہیں کہ ان کا دھندہ بلاروک ٹوک جاری ہے۔
نوجوانوں کو یورپی ملکوں میں پرکشش روزگار کا جھانسا دے کر اور ان سے لاکھوں روپے بٹور کر غیر قانونی طور پر باہر بھیجنے والوں نے اس بار بھی 20 سے 35 لاکھ روپے لے کر بڑی تعداد میں نوجوانوں کو لیبیا اور وہاں سے غیر قانونی طور پر اٹلی روانہ کیا لیکن ان بے نصیب لوگوں کی کشتی یونان کے سمندر میں ڈوب گئی۔ ظلم یہ کہ پاکستانیوں کو کشتی کے نچلے حصے میں زبردستی رکھا گیا تھا۔ اُن پر تشدد بھی کیا، سب سے زیادہ تعداد آزاد کشمیر کے نوجوانوں کی ہے۔ باقی لوگوں کا تعلق سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہاء الدین وغیرہ سے ہے۔ ایک متاثرہ معمر خاتون نے بتایا کہ اس نے اپنا زیور، زمین فروخت کرکے ایجنٹ کو 62 لاکھ روپے ادا کیے تا کہ بیٹا باہر جا کر بڑا آدمی بن جائے۔ جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو حکومت ایک کمیٹی بنادیتی ہے پھر یہ کمیٹی سرخ فیتے کی نظر ہوجاتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کسی بھی غیر قانونی ریکروٹنگ ایجنٹ کو سزائے موت نہیں ہوئی، اگر قانون کی بالادستی قائم ہوتی اور ملک کے معاشی حالات اچھے ہوتے تو اس طرح کے واقعات نمودار نہیں ہوتے۔ اس امر میں کوئی مبالغہ نہیں کہ پاکستان میں مہنگائی اور مسائل اپنے عروج پر ہے، روپے کی قدر خطرناک حد تک گرتی جارہی ہے، عوام دلبرداشتہ ہوچکے ہیں۔ چند ماہ کے دوران 10 لاکھ سے زائد ذہین افراد باقاعدہ ویزے لے کر ملک سے چلے گئے۔ کیا نااہل حکمران اس کے ذمے دارنہیں؟۔
انسانی اسمگلروں سے نمٹنے والا ادارہ ایف آئی اے بھی روایتی سرکاری اداروں کی طرح کام کرتا ہے کیونکہ یہ اہم ادارہ بھی ملک کی سیاست کی نظر ہوچکا ہے، ایماندار اور محب وطن فرض شناس افسران کو لگانے کے بجائے من پسند افسران کو لگایا جاتا ہے، ہر سرکاری ادارے میں حکومت نے میرٹ کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے، چند دن کچھ مجرموں کو گرفتار کیا جاتا پھر کوئی بڑی سیاسی شخصیت آکر مک مکا کرواتی ہے۔ پھر اُن مجرمان کے بھائی، بیٹے ایک نئے روپ کے ساتھ میدان میں اُترتے ہیں، نئے شکاری پرانے جال بچھائیں گے پھر سہاگنوں کے سہاگ اجڑیں گے، پھر مائوں کی گودیں خالی ہوں گی۔ پھر بچے یتیم ہوں گے اور یہ کہانی اس عارضی وقفے تک جاری رہے گی جب تک کوئی اور حادثہ پیش نہیں آئے گا۔ ایک روزہ سوگ کا اعلان کرنے والے حکمرانوں آپ ان اسباب پر کب غور فرمائیں گے کہ لوگ دھڑا دھڑ کیوں بھاگ رہے ہیں۔
یونان کے شہروں میں اس حادثے پر بڑے بڑے عوامی مظاہرے ہورہے ہیں مگر افسوس جس ملک کے لوگ لقمہ اجل بنے وہاں کوئی مظاہرے نہیں کررہا ہے۔ عوام 9 مئی کے واقعے کے بعد سے خوف زدہ ہے، لوگوں نے اپنی زبانوں پر قفل سجا لیے ہیں، پہلے یہ کام ایران اور ترکی کے ذریعے ہوتا تھا مگر ایران اور ترکیہ نے سرحدی پابندیاں سخت کیں تو ان ایجنٹوں نے تباہ حال لیبیا کو اپنا بیس کیمپ بنالیا، کئی نوجوانوں کو سرحدی گارڈز گولی مار دیتے ہیں، دشوار گزار راستوں پر جابجا انسانی ڈھانچے نظر آتے ہیں۔ اگر قسمت سے یہ نوجوان یورپ پہنچ بھی جائیں تو وہاں پر غلاموں جیسی زندگی گزارتے ہیں، چند ایک خوش نصیب ہوتے ہیں جو وہاں جا کر کچھ بن جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 8 برس میں 23 ہزار افراد کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں کی 2 خبریں اور حاضر ہیں، یورپ جانے والے 54 پاکستانی ایران میں گرفتار۔ اسپین میں کشتی ڈوبنے سے 35 تارکین وطن کی ہلاکت کا خدشہ۔ یہ نہ رکنے والا سلسلہ اس طرح چلتا رہے گا جب تک عوام جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر پھینک نہیں دیتے اور یہ کام صرف اور صرف جماعت اسلامی ہی کرسکتی ہے، مگر اس قوم کو تو غلامی ہی میں رہنا پسند ہے۔ مجھے تو اپنی قوم کی حالت پر ترس آتا ہے۔ قائداعظمؒ بھی اس غم میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ زرداری صاحب جس طرح سے بلاول ہے یہ قوم کے نوجوان بھی کسی کے بلاول ہوگئے۔ شہباز شریف صاحب جس طرح حمزہ شہباز ہیں اس طرح سے قوم کے یہ نوجوان بھی کسی ماں کا حمزہ ہوگا۔ عمران خان صاحب جس طرح سے آپ کے لیے سلمان قاسم ہیں اس طرح سے ان نوجوانوں میں کسی ماں کا سلمان قاسم بھی ہوگا۔
75 سال میں ہم روز بروز گرتے جارہے ہیں آپ چین کو لے لیں اس کی کایا پلٹ گئی۔ بنگلادیش کو دیکھ لیں پوری دنیا میں چینی، بنگالی اور ایرانی تارکین تھے مگر چین خوشحال ہوا وہ واپس چین چلے گئے۔ انقلاب ایران کے بعد ایرانی اپنے وطن چلے گئے، آج بنگالی دیکھنے کو نہیں ملتا کیونکہ بنگلادیش کے حالات اب پاکستان سے بہت اچھے ہیں۔ حکمرانوں یہ آپ کی ذمے داری ہے کہ پاکستان کو خوشحال بناتے مگر افسوس جو آیا اُس نے قوم کو صرف بیوقوف بنایا اور اپنی اولادوں کے لیے مال بنایا اور غریب کے بچوں کو یونان کے سمندر کی بے رحمت موجوں کے حوالے کردیا۔
کیا اللہ تعالیٰ ان کا محاسبہ نہیں کریں گے، یہ نوجوان جو غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں اگر حکومت چاہے تو یہ سب قانونی طریقے سے بھی جاسکتے ہیں، بس تھوڑی محنت اور ایمانداری کی ضرورت ہے، یہ سلسلہ بس 2 سے 3 ہفتے تک اخبارات کی زینت بنے گا پھر ان نوجوانوں کا غم ان کے گھروں تک محدود ہوجائے گا۔ ابن آدم یہ سب کچھ سال سے دیکھ رہا ہے اقوام متحدہ کو اس حوالے سے قانون بنانا ہوگا اور جو انسانی تجارت میں ملوث پایا جائے اُس کی سزا موت ہو، اس وقت ہر کالم نگار اپنا قومی اور صحافتی فرض ادا کررہا ہے جس کی پاداش میں وہ شہید بھی ہورہا ہے اور لاپتا بھی کیا جارہا ہے۔ اے اللہ! پاکستان اور پاکستانی قوم پر رحم فرما۔