ایک ٹیچر دوسرے ٹیچر کی جگہ کلاس لینے چلا گیا۔ تھکن کے باوجود کامیابی کے موضوع پر طلبہ کو لیکچر دیا اور پھر ہر ایک سے سوال کیا۔ کس کس کو کیا بننا ہے۔ بچوں کا ملا جلا جواب آیا، انجینئر، ڈاکٹر، پولیس، فوجی، بزنس مین وغیرہ وغیرہ۔ ایک بچہ عینک لگائے گم سم خاموش بیٹھا ہوا تھا جس کی سوچوں کا تسلسل ٹیچر کی بلند آواز نے یقینا توڑ کر رکھ دیا تھا، اس نے کہا، ہاں شہزادے آپ کو کیا بننا ہے۔ بچہ آہستہ آہستہ کھڑا ہوا اور نہایت عزم و یقین کے ساتھ اس نے جواب دیا، سر! میں نورالدین زنگی بنوں گا۔ اس کا جواب سن کر ٹیچر کی روح تڑپ کر رہ گئی۔ اس نے کہا، بیٹا آپ انجینئر، ڈاکٹر یا فوجی وغیرہ کیوں نہیں بننا چاہتے تو اس نے جواب دیا، سر! میری امی نے مجھے بتایا ہے کہ اگر میں نور الدین زنگی بنوں گا تو مجھے سیدنا محمد عربیؐ کا دیدار نصیب ہوگا۔ اس کی باتیں سن کر۔ ٹیچر کا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔ اسے اس بات کا احساس تھا کہ آج کل ماؤں نے نورالدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں۔ نورالدین زنگی کون تھے، کبھی کسی نے اس کے متعلق جاننے کی کوشش کی، یہ ہے وہ سوال جس کا جواب ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے۔ ایک رات سلطان نور الدین زنگی عشا کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ بیٹھے اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقائے دوعالمؐ کو کون ستا رہا ہے۔ آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آ رہا تھا اور آج پھر چند لمحوں پہلے انہیں آیا جس میں سرکار دو عالم نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں۔ آپ مدینہ پہنچے، مدینے کے سارے راستے بند کرا دیے اور تمام خاص و عام کو کھانے پر بلا بھیجا۔ مگر آپ کو وہ چہرے نظر نہیں آئے جن کی شکل آپ کو پیارے نبی نے خواب میں دکھائی تھی۔ تحقیق کی تو پتا چلا کہ دو بہت عبادت گزار بندے جو دن رات عبادت میں مصروف رہتے ہیں لیکن ان کا مدینے سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ نے حکم دیا کہ ان کو حاضر کیا جائے۔ جب وہ دونوں حاضر کیے گئے تو آپ نے انہیں پہچان لیا۔ ان کو لیکر وہاں گئے جہاں وہ قیام پزیر تھے۔ ان کے خیمے میں بچھی چٹائی ہٹائی تو وہاں ایک سرنگ بر آمد ہوئی اور جب اس کے اندر داخل ہو کر جائزہ لیا گیا تو یہ حضور اقدسؐ کے قدموں تک پہنچ چکی تھی اور ذرا بھی تاخیر ہوجاتی تو یہ دو افراد جو نسلاً یہودی تھے، آپؐ کے جسم اطہر کو وہاں سے منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ نورالدین زنگی نے ان دونوں یہودیوں کے سر قلم کروا دیے اور روایت کے مطابق آپ نے اسی سرنگ کے راستے بنی کریمؐ کے پاؤں کے انگوٹھوں کو چومنے کے بعد اس سرنگ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کروا دیا۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ اب مسلمان ماؤں نے ہی کیا باپوں نے بھی اپنے سارے اجداد کے جیسے بچے پیدا کرنے، ان کی ذہن سازی کرنے اور ان کو مستقبل کا نورالدین زنگیؒ، ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ و علیؓ ، جیسا بنانے کی جانب توجہ دینا ہی چھوڑ دی ہے۔ تاریخ میں ایسے ایسے سپہ سالار اور مردِ میدان گزرے ہیں جن کی جنگوں کے بے شمار واقعات پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ افسانوی باتیں ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہیں 313 ہزاروں سے مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں، کہیں صرف 60 مجاہدین 6 لاکھ فوج کو شکست ِ فاش دے کر کامیاب و کامران اپنے لشکر کی جانب لوٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تو وہ مجاہدین و صحابہ کرام ہیں جن کی تربیت آپؐ کے ہاتھوں ہوئی تھی لیکن 14 صدیوں سے تا حال ایسے ایسے سالاروں کا ایک تسلسل ہے جنہیں تاریخ کسی بھی صورت فراموش نہیں کر سکتی۔ کیا محمد بن قاسم، کیا سلطان صلاح الدین ایوبی، کیا محمود غزنوی، کیا ٹیپو سلطان اور کیا سراج الدولہ، یہ سب ایسے چمکتے دمکتے ستارے ہیں جو تاریخ کے آسمان پر ہمیشہ ہمیشہ سورجوں کی مانند روشن رہیں گے۔ مجاہدین صرف وہ ہی نہیں ہوتے جو میدان جنگ میں شمیر و سناں کے جوہر دکھاتے ہوں یا لاکھوں جنگجوؤں پر مشتمل فوج کو خاک چاٹنے اور ناکوں سے لکیریں کھنچنے پر مجبور کر دیتے ہوں۔ جنگیں کبھی مستقل نہیں ہوا کرتیں جبکہ اس کے مقابلے میں حالت امن کا دورانیہ بہت طویل ہوتا ہے جو اکثر فتنہ و فساد کو جنم دینے لگتا ہے۔ حالت امن کو دوام بخشنا جنگ و جدال سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ افراد میں شعور پیدا کرنا، ان کے ذہنوں کو جہالت سے پاک کرتے رہنا، ان کی مسلسل ذہنی تربیت کرنا، ان کو اسلام اور اس کے تقاضوں کے متعلق آگاہ رکھنا، معاشرے میں عدل و انصاف کو فروغ دینا، انصاف کو ہر خاص و عام کی دہلیز تک پہنچانا، معیشت کو مضبوط بنانا، لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا، ان کو غربت سے بچا کر رکھنا، یتیموں، مسکینوں، غریبوں، محتاجوں اور ناداروں کے لیے مسلسل آسانیاں فراہم کرتے رہنا، جیسے امور کوئی آسان کام نہیں۔ مسلم معاشرے نے ہزاروں بزرگانِ دین، لاکھوں علمائے کرام، ان گنت حکمران ایسے پیدا کیے ہیں جنہوں نے اپنا سب چین و سکون عوام کی کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر کے رکھ دیا تھا۔ تحریک پاکستان میں بھی ایسے بیسیوں رہنمایانِ قوم گزرے ہیں جنہوں نے اپنی جائدادیں، کوٹھیاں، بنگلے یہاں تک کہ اپنے بینک اکاؤنٹ تک پاکستان کے لیے وقف کر دیے تھے۔ جن میں لیاقت علی خان جیسے بہت سے نام شامل ہیں۔ حکیم سعید ہوں یا طارق عزیز، ایسے نام ہیں جنہوں نے اپنی عمر بھر کی کمائی پاکستان کے نام کر دی ہے لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اپنے اسلاف جیسے بچے اٹھانے کے بجائے کبھی بل گیٹ، کبھی ارسطو اور کبھی افلاطون جیسے بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود ہم اپنے اندر سے کوئی ایسی قیادت نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جو پاکستان کو امریکا، روس، جاپان یا چین جیسے ممالک پر برتری دلا سکے۔