ایک نس ٹس سے مس اور بس

864

بخار آیا بخار کے بعد کمزوری نے پکڑا کمزوری دور ہوئی تو کمر کی کسی نس نے پریشان کیا اور کچھ ایسا پریشان کیا کہ دن تو گزر جاتا لیکن رات دگنے درد کے ساتھ آتی اور نیند بھاگ جاتی۔ کیا ہے انسان کہ ذرا بیمار ہوا اور کسی نس نے پریشان کیا اور بس… ایک نس ٹس سے مس اور بس۔

اس درمیان کتنی ہی خبریں ایسی تھیں کہ جن پر دل دکھا لیکن درد نے قلم اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ سب سے پہلے جس ڈھٹائی، دیدہ دلیری اور طاقت کے زور پر کراچی کے عوام پر ڈاکا ڈالا گیا۔ 9 لاکھ سے زائد ووٹ لینے والوں کو تین لاکھ ووٹ لینے والی جماعتوں نے میئر شپ سے دور رکھا۔ جمہوریت پر شب خون مارا اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے۔ میئر کے انتخاب سے قبل قانون میں ترمیم کی گئی اس سارے کھیل میں کھلاڑی کئی تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آگے آگے تھی ساتھ بلاول زرداری بھی بیانات داغ رہے تھے کہ میئر تو جیالا ہی بنے گا۔ لیکن اصل میں الیکشن کمیشن اور ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی موجود تھی جو پی ٹی آئی کا وجود کسی بھی جگہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس سب میں نقصان کراچی کے عوام کا ہوا ہے کیوں کہ حافظ نعیم الرحمن کراچی کی ضرورت ہیں جس طرح انہوں نے ہر ہر سطح پر کراچی کا مقدمہ لڑا اور عوام کا ساتھ دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بہرحال یہ بات ابھی ختم نہیں ہوگی، پیپلز پارٹی نے کراچی کے عوام کے مینڈیٹ پر شب خون مار کر کلنک کا جو ٹیکہ اپنے چہرے پر لگایا ہے وہ کراچی ہی نہیں پورے ملک میں اس کے لیے پشیمانی اور شرمندگی کا ایک مستقل بندوبست رہے گا۔

دوسری طرف حافظ نعیم الرحمن مکمل قانونی اور سیاسی جدوجہد میں متحرک ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں اس انتخاب کے خلاف درخواست دائر کی ہے اور آگے عدالت عظمیٰ بھی جانے کا پورا ارادہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کیسے انصاف کا علم بلند رکھتی ہے۔

دوسرا انتہائی المناک واقعہ یونان کے ساحلوں پر سیکڑوں ہم وطن تارکین کی موت تھی۔ یہ حادثہ پہلا نہیں اس سے قبل بھی ہزاروں نوجوان سہانے خواب آنکھوں میں سجائے موت کی گھاٹیوں میں جانتے بوجھتے قدم رکھتے رہے ہیں کچھ پار لگتے ہیں اور کچھ راستے ہی میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں، کچھ اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ان کے تشدد سہتے زنجیروں میں جکڑے ویڈیو گھر والوں کو بھیجتے ہیں اور لاکھوں روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمارے نوجوان بے روزگاری مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر انسانی اسمگلنگ کے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں سب کچھ جانتے بوجھتے کہ یہ کتنا مشکل اور خطرناک ہے نوجوان اچھے مستقبل کے خواب سجائے موت کے اس سفر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی معیشت شدید بحران کا شکار ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر ہر روز گرتے جارہے ہیں، کارخانے اور فیکٹریاں بند ہورہی ہیں، لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں۔ لہٰذا نوجوان اپنے لیے کوئی راستہ نہ پا کر اس خطرناک راستے کا انتخاب کررہے ہیں۔ باپ زمینیں اور گھر بیچ کر انسانی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں کو اپنے بچے یورپ بھجوانے کے لیے لاکھوں روپے دے رہے ہیں، اکثر گھر والے خوشی خوشی اپنے بچوں کو رخصت کرتے ہیں۔ آج گجرات شہر اور اس کے نواحی علاقے ایسے ایجنٹوں کا گڑھ کہلاتے ہیں۔ گجرات سے روزگار کے لیے بیرون ملک جانے کی خواہش کرنے والے اتنی کثرت سے ہیں کہ ایک مقامی فرد کا کہنا ہے کہ یہاں آپ کو کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنے گھر سے ایک نوجوان کو یورپ بھیجنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کیونکہ بیرون ملک جانے والے نوجوان اپنے خاندان کو ایک شاہانہ زندگی فراہم کرتے ہیں۔

بچ جانے والے نوجوان کہتے ہیں کہ باہر جا کر قسمت آزمانے کی دھن ہمیں اپنے ان رشتے داروں کے آئے دن بدلتے اسٹیٹس سے لگی ہے۔ وہ باہر اپنی ٹھاٹ باٹ والی زندگی کی تصاویر اپنے اسٹیٹس پر لگاتے تھے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ گجرات کے ایک علاقے میں قطار در قطار حویلی نما بڑے بڑے شاہانہ گھر ان لوگوں کی خوشحالی کی داستان سناتے ہیں لیکن یہ گھر کیا اپنے بیٹوں کی ہمیشہ کی رخصتی کا غم کبھی بھلا پاتے ہوں گے۔ پچیس اور پچاس لاکھ میں خواب خریدنے کی خواہش میں ماں باپ اپنے بیٹوں کی اذیت ناک زندگی یا موت خرید لیتے ہیں جیسے نذر احمد کے بیٹے نے پچیس لاکھ میں خواب خریدے لیکن یہ خواب زنجیروں میں باندھے جانا اور چار چار دن کھانا نصیب نہ ہونے کے تھے۔

لہٰذا نذیر احمد نے دگنی رقم یعنی پچاس لاکھ دے کر بیٹے کو واپس بلایا۔ بقول نذیر احمد کے یونان کے ساحل پر ڈوبنے والی کشتی میں جو افراد تھے وہ اس کے ساتھ تھے اس نے واپسی کی راہ اختیار کی تھی اور دوسرے لوگ اس کشتی میں سوار کردیے گئے تھے۔ جس کا مقدر ڈوبنا تھا۔ پچیس لاکھ جانے اور پچاس لاکھ واپسی کے خرچ کرکے اب نذیر احمد کا یہ بیٹا اسی موبائل شاپ پر ملازم ہے جس کو بیچ کر یورپ کا سفر اختیار کیا تھا۔ اس کہانی میں ایک طرف درد کا دریا ہے تو دوسری طرف عبرت کا سبق۔