ایک طرف تو آئی ایم ایف کی شرائط کو مان کر بجٹ میں 215 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگا دیے ہیں، تو دوسری جانب وزیر خزانہ نے فرمایا ہے کہ ’’پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے خصوصی حج فلائٹ کا انتظام کیا ہے، ارکان اسمبلی حج پر جائیں اور ملک کے لیے دعائیں کریں‘‘۔ 52 ارکان پارلیمان کا یہ حج قافلہ جس میں صدر مملکت عارف علوی بھی شامل ہیں، خصوصی پرواز سے گیا ہے، اور یہ سارے اخراجات اس ملک کے غریب عوام ہی کو بھگتنے پڑیں گے، یہ ملک دعاؤں کے سہارے ہی چل رہا ہے۔ ورنہ حکمرانوں نے تو اسے ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملک کے سب سے بڑے ایوان کی بجٹ سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ فنانس بل کی منظوری کے عمل کے دوران اراکین کی اکثریت ایوان سے غائب تھی، وزیر اعظم سمیت اہم پارلیمانی لیڈر بلاول زرداری، آصف زرداری، راجا یونس، اختر مینگل، امیر ہوتی سب غیر حاضر تھے، صر ف 70 حکومتی اور 2 اپوزیشن ارکان کی شرکت سے یہ بھاری ٹیکسوں کا فنانس بل منظور کرلیا گیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے سود حرام قرار دیا ہے، وفاقی شریعت عدالت سود کے خاتمے کا فیصلہ دے چکی ہے، لیکن حکومت اس سودی نظام کو جاری رکھے ہوئے جماعت اسلامی کے اکلوتے رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے اس پر آواز اٹھائی اور فنانس بل کو سودی نظام پر مبنی قرار دیتے ہوئے، اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کا مطالبہ کیا، لیکن اس نقار خانے میں ان کی آواز کون سنتا ہے۔
ملک میں الیکشن کے بارے میں کوئی آواز اٹھتی ہوئی نظر نہیں آتی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی، دونوں تیاریوں میں مصروف ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسرے سے خائف اور برسر پیکار بھی ہیں، پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب اور مسلم لیگ ن کے قلعوں میں شگاف ڈال رہی ہے، اور اس پر مسلم لیگ شور بھی مچا رہی ہے۔ لیکن مسلم لیگ ن زرداری کی سیاست کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، عیاری اور چالاکی، اور وقت سے فائدہ اٹھانے میں زرداری کو اولیت حاصل ہے، نواز شریف اب شاید ہی پاکستان آئیں، اس لیے بھاری دل کے ساتھ انہوں نے مسلم لیگ ن کی صدارت کی پگھ اب شہباز شریف کے سر پر رکھ دی ہے، مسلم لیگ میں بھی توڑ پھوڑ جاری ہے، مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی نے اپنے راستے جدا کر لیے ہیں، حکومت میں پیپلز پارٹی نہ صرف اپنے حصے کا شیئر لے رہی ہے، بلکہ حکومت کو بلیک میل بھی کر رہی ہے، سوات میں بلاول زرداری کی تقریر میں بجٹ پر تنقید بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، بلاول نے واضح کیا تھا کہ سیلاب زدگان کے لیے مناسب فنڈ نہیں رکھے تو بجٹ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ بعد میں ان کو لائن شیئر کے طور پر سیلاب زدگان کے نام پر فنڈز مہیا کر دیے گئے۔ سارا عالم جانتا ہے کہ سیلاب میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں کیا امدادی کام کیا تھا، یہ الخدمت اور دیگر فلاحی تنظیم تھیں، جنہوں نے سندھ اور جنوبی پنجاب میں شاندار خدمات انجام دی تھی۔ گزشتہ دنوں طلال چودھری نے، پیپلز پارٹی سے کہا تھا کہ ’’ہم بھی انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن یہ آزاد کشمیر اور مئیر کراچی جیسے نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو یہ احسان بھی جتایا کہ کراچی مئیر کے انتخاب میں مسلم لیگ ن نے بھی پیپلزپارٹی کو ووٹ دیے تھے۔
کراچی میں جس ڈھٹائی اور بے شرمی سے پیپلز پارٹی میئر شپ پر قابض ہوئی ہے، وہ سب نے دیکھ لیا۔ جماعت اسلامی اس انتخاب کو چیلنج کر رہی ہے، لیکن جب تک سہولت کار پیپلز پارٹی کو سہارا دے رہے ہیں، وہ کراچی پر قبضہ رکھے گی۔ جماعت اسلامی کو شکست نہیں ہوئی، اس کی یہ فتح ہے کہ اس نے پیپلز پارٹی کی فسطائیت کو بے نقاب کیا ہے، جماعت اسلامی کو کراچی میں نو ٹاؤن چیئرمین ملے ہیں، اسے اب ان پر فوکس کرکے اپنے تنظیمی اور دعوتی کام پر توجہ کرنی چاہیے۔ جماعت اسلامی ایک مضبوط اپوزیشن سے بلدیہ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ اس بات کو پیپلز پارٹی بھی جانتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے کامیابی کیسے حاصل کی ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کو بھی عوام کی خدمت کرکے بدنامی کا یہ داغ مٹانا چاہیے۔ کراچی کے بہت سے حلقے جن میں چاروں وارڈ جماعت اسلامی کے کونسلر جیت چکے تھے اس کے باوجود چیئرمین اور وائس چیئرمین کو جتوایا گیا جس پولنگ بوتھ سے جنرل الیکشن میں چار ووٹ پڑے وہاں اسی بوتھ میں دس ووٹ کو دو سفر کے اضافے کے ساتھ ہزار ووٹوں میں تبدیل کردیا گیا۔ اگلے مرحلے میں کیا ہوگا، اس کی ایک جھلک الیکشن کے بعد جماعت اسلامی کے کارکنوں پر پیپلز پارٹی اور پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن سے سب دیکھ چکے ہیں۔ حافظ نعیم کی قیادت، ہمت، نیک نامی کی سب تعریف کرتے ہیں۔ وہ ہارے نہیں ہیں، بلکہ ہرائے گئے ہیں۔ عوام یہ سب جانتے ہیں، آدھے سے زیادہ شہر ان کے قبضے میں ہے، ضلع وسطی کورنگی گلشن اقبال شاہ فیصل کالونی جیسے اہم مقامات میں، اب مقابلہ کام کا ہونا چاہیے جس سے شہریوں کا بھلا ہوگا۔ عام انتخابات قریب ہیں جماعت اپنے ٹاونز میں ترقی لاتی ہے تو مزید ووٹ لے سکے گی۔ جہاں شہری علاقوں میں ناانصافی ہے، وہاں سندھ کے گاؤں دیہاتوں میں بھی ناانصافی اور ظلم ہے، اس پر آواز اٹھانی چاہیے۔ یہ سیاسی معاملہ ہے۔ جسے سیاسی انداز ہی نمٹنا چاہیے۔