گنے چنے دنوں کی حکومت نے عوام کو جاتے جاتے نئے انتخاب کے لیے سنہرے خواب دکھاتے ہوئے وہی فرسودہ ہتھکنڈا اختیار کیا جو ماضی میں بھی کیا جاتا تھا۔ بھوک سے نڈھال اور ملک کی معیشت کے حوالے سے اٹھنے والے سوال کا جو ملک کی معاشی بقا کا جواب معاشی بحالی منصوبے کے لولی پاپ سے یوں دیا گیا کہ معاشی بحالی کا ایک منصوبہ بنا ڈالا اور قوم کو بتادیا کہ اس منصوبہ کی تکمیل 2035ء میں ہوگی۔ یعنی تقریباً 12 سال میں مکمل ہوگا تو پاکستان 10 کھرب ڈالر کی معیشت کا حامل ہوگا۔ یہ سی پیک کی طرح گیم چینجر ثابت ہوگا۔ اس منصوبے میں فوج کا بھی مینجمنٹ اور کوآرڈی نیشن کا کردار ہوگا۔ اور وہ ٹیکنیکل سپورٹ بھی فراہم کرے گی وغیرہ وغیرہ۔ اس سلسلے میں خلیج کی ریاستوں کی سرمایہ کاری میں سہولت کاری کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ ون ونڈو سہولت ہوگی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے روایتی دھکے نہ کھانے پڑیں گے۔ باخبر حلقوں کے مطابق یہ سرمایہ کار لاکھوں ایکڑ بے کار پڑی زمینوں کو پٹہ پر حاصل کریں گے، کاشت کرائیں گے اور یوں روزگار کی سبیل لاکھوں افراد کی بنیں گے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے خوب پیداوار کا سامان کرکے زرعی اجناس کو درآمد پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ کی بچت کا سامان بھی ہوگا۔ بات تو درست ہے مگر یہ خواب پرانا ہے برسوں قبل بھی ان خطوط پر خبریں میڈیا پر آتی تھیں کہ سپرہائی وے پر سرکاری زمین خلیج کے سرمایہ کاروں کو کوشت کاری پر دی جارہی ہے۔ یہ لاکھوں ایکڑ زمین ہے تو پھر ابھی یہ معاملہ کاغذات کی منزل طے کررہا تھا کہ سندھ میں ایک مومنٹ ان کے خلاف ایک اشارہ پر شروع کردی گئی اور یوں بات ادھوری رہ گئی۔
آصف علی زرداری نے ٹھٹھہ، بدین کے قریب ذوالفقار آباد کے نام سے ایک جدید بستی بسانے اور بین الاقوامی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنایا مگر پھر کیا ہوا یہ منصوبہ بھی دھرے کا دھرا رہ گیا۔ چند درجن افراد اغیار کے اشارے پر نکلے اور حکومت افسوس ہے کہ ان کے آگے ٹھیر نہ سکی اور ڈھیر ہوگئی۔ عمران خان نے سمندر کے اندر جزیروں میں جدید ترین شہر اور سیاحی مراکز بنانے کا اعلان کیا اور اس منصوبے میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔ بین الاقوامی پیشکش بھی موصول ہوئیں مگر پھر جھینگوں کی جان کو خطرہ ہے جیسے نامعقول اعتراضات۔ ڈیلٹا متاثر ہوگا، نے اس منصوبے کو سمندر بُرد کردیا اور اب پھر عوام الناس میں ساکھ بحال کرنے اور حکمران ملک پر حق حاصل کرنے کے لیے معاشی بحالی کے نام پر جو پروگرام بنایا گیا ہے اس میں فوج کو اس نئے خوش نما منصوبے میں اس وجہ سے بھی شامل کیا گیا ہے کہ عوام کے اعتماد کو بحال کیا جائے تا کہ وہ لااعتبار سیاسی حکمرانوں پر اعتبار کرے۔ جو ماضی میں خواب لاتعبیر دکھاتے رہے ان کی ساکھ بحال ہو جو فی الحال تو ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہ انتخابی اور سیاسی چال عوام سمجھ رہے ہیں تو کچھ غلط بھی نہیں اور جھانسا ہے اور قوم کو خوابوں کی دنیا میں رکھنے کا تسلسل ہے۔ ویلاٹار ہے۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک، کی بات ہے۔ 2035ء میں دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔ عیار مکار سیاست دان پون صدی سے عوام کے ساتھ ایسا کھلواڑ کرتے اور بہلاتے آئے ہیں اور خود وقت کے قارون بن گئے۔ مال و اثاثے سنبھالے نہیں جارہے ہیں اور عوام کی بے چارگی بڑھتی جارہی ہے۔
کوئی باہر سے سرمایہ کار نہ آئے سب میرا ہو
دھاریا نہ کھپے، ان کی چال ہے