ہرگزرتے ہفتے سوشل میڈیا پر عجیب کمالات نظر آ رہے ہوتے ہیں، اخلاقیات اور اِس سے ملتی جلتی تمام چیزوں کو بے قدر کرکے روندا جا رہاہے۔ جی ہاں،پہلے اخلاقیات سے اَقدار کو نکالتے ہیں،پھر اُس کو جس شکل میں پیش کرتے ہیں وہ اَخلاقیات کے علاوہ سب کچھ ہوتی ہے۔ذرا دیکھیں اِس ہفتہ کی اہم ٹرینڈنگ لسٹ شہزادہ داؤد بھی ٹاپ ٹرینڈنگ میں،ٹائی ٹینک بھی ٹرینڈنگ میں، نادر علی بھی،سنیتا مارشل بھی،ہولی بھی،عاصم منیر بھی، آئی ایس پی آر بھی، بوٹ ایکسیڈنٹ بھی ، گریس بوٹ ڈزاسٹر بھی ٹرینڈنگ میں۔
دیکھا جائے تو، ہولی منانے،والا مسئلہ بھی بڑا سنگین ہے۔ جامعہ کراچی میں جس طرح رمضان سے قبل امسال یہ ہندو مذہبی تہوار سرکاری بندوقوں کےسائے میں منایا گیا،اب قائد اعظم یونیورسٹی میں اس دھوم دھڑکے سے ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہیے ۔بہرحال سوشل میڈیا پر کچھ سنجیدہ افراد نے سخت رد عمل دیا تو بہرحال کہیں کوئی دینی غیرت جاگی تو ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ایک خط تمام جامعات کو لکھ دیا کہ یہ عمل پاکستان کے تشخص کے خلاف ہے۔ اس معمولی سے خط پر وائس آف امریکہ سے لیکر اندازہ کریں کہ پاکستان سے بھارت تک کہاں کہاں چیخیں اُٹھی ہونگی۔ یہ خط سوشل میڈیاپر خوب گردش میں رہاتھا۔تحریر کی اشاعت سے کچھ لمحے قبل ہی بے چاری ملازمت ایمان پر بازی لے گئی اور 22 جون کی شب نوٹیفیکیشن واپس لے لیا گیا۔کئی نکات تھے اس کے ذیل میں کہ فروری کا تہوارجون میں منانے کا مقصد لازمی کچھ اور تھا۔لبرلوں کا پاکستانی باجگزار شاہزیب خانزادہ نے ایچ ای سی کی ڈائریکٹرکے خط کو مکمل جانبداری کے ساتھ رگڑ دیا،اُس نے اپنی لبرل سوچ کو منطق،اور خط کی سوچ کو دقیانوسی قراردے دیا، جس کا اُس کو اختیار نہیں تھا۔میں منتظر ہوں کہ اس کے جانبدارانہ عمل کے خلاف کب اہل حق کوئی ایمانی ،قانونی، طرز کی غیرت دکھائیں گے،کیونکہ میزبان کبھی بھی جانبدار ہو کر بات نہیں کر سکتا؟سندھی ہندو دوستوںکی تفریح، یونیورسٹی میں ہندوؤں کی تعداد پر سوال، نام نہاد مذہبی رواداری پر سوال اُٹھائے گئے۔اس میں جامعہ کراچی میں سندھ حکومت کے دباؤ پر مسلم وائس چانسلر کو” رنگیلا“ کرکے منائی جانے والی تقریب نا معلوم کیوں زیادہ موضوع نہ بن سکی۔بہرحال جبران ناصر ایک طرف اترا،ہائیر ایجوکیشن کے خلاف تو دوسری جانب قیصر احمد راجہ نے بمباری کی۔سندھی چینلز پر بھی سخت رد عمل آیا، پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعت کسی طور اس خط کو برداشت نہیں کرنے والی ۔ہائیر ایجوکیشن کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ سہیل نے اپنے خط میں اس قسم کی ہولی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھاکہ ”تمام عقائد کا احترام ضروری ہے،مگر تعلیمی اداروںمیں ایسی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنا افسوسناک ہے جو ہماری سماجی، ثقافتی اقدار سے مکمل طور پر منقطع ہونے اور ملک کے اسلامی تشخص کے خاتمے کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ ایچ ای سی کے بقول ’ہندو تہوار ہولی‘ کا انعقاد بھی ایسا ہی واقعہ ہے جس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی ہے اور ملکی اِمیج متاثر ہوا ہے“۔اب سخت امتحان ہے 20 جون کا خط کب ، کیسے واپس، کن حالات میں واپس ہوگا ۔ 23 کروڑ عوام کی ریاست ، محض چند سو ہندوؤں کے ہاتھوں کیسے یرغمال ہوگی، لگ پتہ جائیگا۔
نادر علی ، بھی اچانک سے بہت سارا پیسہ آجانے والوں میں سے ایک پاکستانی ہے۔ نادر علی کی وڈیوز دیکھ لیں تو آپ جان جائیں گے کہ اِس کو واقعی کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اَب کیا کرے۔ اُس کی پرانی وڈیوز جن میں وہ لوگوں کو تنگ کرتا تھا ، دیکھنے والے خوش ہوتے تھے ۔اس عمل کا نام Prankرکھ کر پوری ایک سوشل میڈیا کی پوری انڈسٹری کھڑی کر لی گئی۔ پرینک کا مطلب ناظرین کو خفیہ کیمرے ظاہر کرتے ہوئے کچھ انجان لوگوں کو ایسے برجستہ بطور تنگ کرنا کہ دیکھنے والا صورتحال سے لطف اُٹھائے ۔ یہ لطف اتنا اُٹھایا گیا کہ سوشل میڈیا پر نادر علی مقبو ل ہوتا چلا گیا اور مقبولیت کے کئی ریکارڈ توڑ دیئے ۔ ناظرین کے تیز ترین رُجوع نے وڈیوز کو مقبولیت دی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم اُس کو اشتہارات کی مد سے آج تک مستقل رقم بھیج رہے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ اَب یہ سلسلہ رُک جاتا کہ پیسے تو اَب گھر بیٹھے خود آتے رہیں گے ، مگر صرف یہ فرق ہوا کہ نادر علی نے پرینک کرنے ختم کردیئے ، کیونکہ اِس کام کے لیے اُس کے تمام ساتھی الگ ہوگئے۔سب نے اپنی اپنی الگ سوشل میڈیا دُکانیں کھول کر معاشرے کی اخلاقیات تباہ کرنے میں اپنا حصہ ملانا شروع کر دیا۔نادر علی اور اس کے تمام ساتھی جن ذو معنی اور فحش گوئی و انٹرٹینمنٹ کے نام پر جو مواد تخلیق کر رہے ہیں،میری سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیسے اس کے خطرناک نتائج کا سامنا کریں گے؟بہرحال موضوع یہ تھا کہ نادر علی نے ساتھیوں کی جُدائی کے بعد انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا۔اُس کے پوڈ کاسٹ میں جو لوگ شریک ہورہے ہیں اور جو گفتگو اُس میں ہو رہی ہے ، جس طرح کے سوالات ہوتے ہیں،نادر علی کی خود کی علمیت میں اب تک صفر کے علاوہ کچھ نہیں، پھر وہ جن شخصیات کے ساتھ انٹرویو کر رہا ہے،وہ خود مہمان کے لیے بھی سوال ہیں۔غیر سیاسی یا دینی شخصیات کے علاوہ میرا غالب گمان یہی ہے کہ باقی مہمانوں کو پیسے دے کر ہی بلایا جاتاہے۔دینی شخصیات کے پاس تو یہ جواز نظر آیا کہ اُن کو اپنی بات پہنچانی تھی۔اس کے ذیل میں مفتی طارق مسعود، مفتی حبیب عطاری، ساحل عدیم، طہ بن جلیل، شہنشاہ نقوی، انجینئرمرزا، مفتی منیب الرحمٰن تو سمجھ آسکتے ہیں۔مگر جاوید شیخ جیسے اَداکار کو اَب کونسی مزید شہرت درکار ہے، شعیب اختر کومزید کونسی شہرت کی بھوک ہے،تابش ہاشمی ، شکیل صدیقی،ذکی بھائی،معاذ صفدرحنا دلپذیر کواب ایسا کونسا مسئلہ ہے جو وہ نادر علی کے سوالات کے جواب دینے کے لیے ناظرین تک پہنچنے کا ذریعہ ڈھونڈیں گے۔بہرحال یہی معاملہ سُنیتا مارشل نامی پاکستانی مسیحی اداکارہ کے ساتھ تازہ انٹرویو میں بھی ہوا۔اداکارہ کا معاملہ یہ تھا کہ ُاس کی شادی مسلمان نام کے اداکار سے ہوئی تھی۔اس کا جواز نادر علی نے خود یہ دیا کہ اہل کتاب سے شادی جائز ہے۔ویسے یہ سب چیزیں انٹرٹینمنٹ کی دُنیا میں انتہائی عام ہیں، اَداکاروں کی باہمی شادی کوئی غیر معمولی بات نہیں،صرف اِس شادی کی خاص بات یہ ہےکہ یہ ابھی تک ٹوٹی نہیں،وگرنہ اداکاروں کی باہمی شادیاں ٹوٹنا ہونے سے زیادہ معمول کی بات بن چکا ہے۔اِس پوڈ کاسٹ میں اداکارہ کے مذہب سے متعلق سوالات پوچھے گئے جو اپنی نہاد میں انتہائی بولڈ سوالات تھے،عین ممکن ہے پہلے سے یہ سوالات ڈسکس کرلیے گئےہوں،اس لیے کہ مہمان نے جواب بھی بہت سکون سے دیا ۔مگرنا در علی کا یہ جملہ کہ، ” اللہ آپ کو ہدایت دے“، سُنیتا کو یقین مانیں یہ جملہ بالکل بھی محسوس نہیں ہوا،کیونکہ اُس نے جواب دیا ، ” ہاں بالکل۔اگر ہونا بھی ہے تو بندہ دل سے ہو،ورنہ نہ ہی ہوتو بہتر ہے“۔ لوگوں نے اِن سوالات و کمنٹس پر سوشل میڈیا پر انتہائی سخت رد عمل دیا، دیسی لبرلز کو تو مزے آگئے، ایسی ایسی پوسٹیں دیکھنے کو ملیں کہ کیا بتاؤں ۔بہرحال ٹرینڈ بنایا گیا،شاید یہی نادر چاہتا ہو۔نادر کوایسے سوال پر کوسنے دیئے گئے جبکہ سنیتا کو سراہا گیا کہ اُس نے اچھے سے جواب دیا،برا نہیں منایا،یہاں تک کے اداکارہ کو ہی یہ کہنا پڑا کہ نادر علی کو کچھ نہ کہا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر سوالات کی لسٹ ایسی ہو کہ آپ اتنی خوبصورت فٹ کیسے ہیں؟ آپ کی پسندیدہ گاڑی کون سی ہے؟آپ انڈیا گئی ہیں؟کام کے دوران کوئی خراب تجربہ؟شادی کیسے ہوئی؟ بچوں کو کیسے وقت دیتے ہیں؟چھٹیوں میں کہاں جاتی ہیں؟ماڈلنگ پسند ہےیا اداکاری؟ کبھی کہیں پیمنٹ پھنس گئی؟کونسی اداکارہ پسند ہے؟بچوں کو کیا بنانا ہے؟پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہاں رہنا پسند کریں گی؟کونسے کام میں زیادہ پیسہ ملتا ہے؟کیا قربانی کے لیے جانور خرید لیا؟کھانے میں کیا پسند ہے؟کیا آپ آدھا کلو کڑھائی کھا سکتی ہیں؟اب مجھے اِن سوالات کے بعد مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ، قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سوالات کس سطح کے ہیںاور کس منصوبہ بندی سے کیے گئے۔
بہرحال جدیدیت کے غلغلے اور نام نہاد ٹیکنالوجی کی ترقی نے امریکی امیروں کی نظر کو خیرہ کیا ہوا ہے ، پھر پیسہ خرچ کرنے کابھی بہانہ چاہیے۔ اس کام کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر فی کس کا مہنگا ترین کرایہ رکھا گیاجو کوئی پاکستانی 7 کروڑ روپے بنتا ہے ۔اس سب مرین میں کل 5 افراد کی گنجائش تھی۔ ادارے کا سربراہ/ مالک آبدوز کے پائلٹ کے طور پر سوار تھا۔اس کے ساتھ ایوی ایشن کاروبار سے منسلک برطانوی بزنس مین ہیمش ہارڈنگ،ریٹائرڈ فرانسیسی نیوی کمانڈر نارگیولیٹ،48 سالہ پاکستانی نژاد برطانوی بزنس مین شہزادہ دآؤد ،اپنے 19 سالہ بیٹے کے ساتھ شریک سفر تھا۔دس لاکھ ڈالر مالیت میں یہ 8 دن کا زیر سمندر سفر کا تجربہ تھا ۔ جس کا واحد مقصد 111 سال پہلے ڈوبے ہوئے جہاز کے ملبے کو دیکھنا تھا۔سب مرین کی 2021 میں تجرباتی ڈائیو بھی ہو چکی تھی۔گذشتہ اتوار کو یہ نکلی اور کوئی دو گھنٹے بعد رابطہ منقطع ہو گیا ، پھر تادم تحریر اس کی تلاش میں امریکہ ، کینیڈا نے سارے ٹیکنالوجی کے جدید گھوڑے کھول دیئے ہیں مگر ناکام ہیں۔یہ ہے اس ساری مشینی جدیدیت کی حقیقت ، اب میں کیا اس پر نقد کروں۔ سوشل میڈیا پر لوگ دو پاکستانیوں کے غم میں مبتلا نظر آئے جنہوں نے 15 کروڑ روپے صرف ایک جہاز کے ملبے کو دیکھنے کے لیے خرچ کر دیئے (اپنی جان کی قیمت پر)۔اتنے بلند مقاصد کے لیے یہ نام نہاد پاکستانی نژاد مسلمان،پیسہ کماتے ہیں اور دیکھ لیں کہ کس طرح خرچ کرتے ہیں؟کیسے ان کے شوق ہیں ؟تو ہماری گفتگو جاری رہے گی،یہاں صفحہ ختم ہو رہا ہے،تحریر اپنی ترتیب میں طویل ہوگئی ہے اس لیے اب اگلے اتوار آپ کو اِسی بحر اوقیانوس میں ڈوبنے والی ایک اور اہم کشتی کی کہانی سے جڑی سوشل میڈیا کی بے حس داستان بھی بتائیں گے ۔