کراچی: ایس بی سی اے کی بدعنوانی

750

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (S.B.C.A) کی بدعنوانی میں کراچی ڈوب رہا ہے۔ ایسے میں ایک خبر آئی ہے کہ کراچی کے علاقے صدر میں ایک بلڈر سے 40 لاکھ روپے بھتہ طلب کرنے پر پریڈی پولیس کی جانب سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے تین سینئر انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ ایک بار پھر تعمیراتی شعبے میں کرپشن کا معاملہ کھل کر سامنے آیا ہے۔ ایس بی سی اے طویل عرصے سے اپنے بدعنوانی کے کاموں اور طریقوں کے لیے شہر کراچی میں جانا پہچانا نام ہے۔ اس پر پورے شہر میں تعمیراتی منصوبوں کی منظوری کے لیے رشوت لینے کا الزام ہے۔ چھوٹا پروجیکٹ ہو یا بڑا… ہر پروجیکٹ پر اس کی گہری نظر ہے۔ اِس پر اْسے مقامی پولیس کا پورا تعاون بھی حاصل رہتا ہے۔ ایسی بھی کئی مثالیں موجود ہیں کہ یہ کرپٹ اور رشوت خور مافیا رشوت نہ ملنے پر زیر تعمیر مکان میں توڑ پھوڑ بھی کرتے ہیں، لیکن جب رشوت مل جاتی ہے تو دوبارہ تعمیرات شروع کرا دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بظاہر تینوں سینئر انسپکٹرز کی گرفتاری ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن یہ ایس بی سی اے کی کرپشن کے برفانی تودے کا محض ایک سرا ہے، اس کے بدعنوانی کے طریقے منظم اور وسیع ہیں، اور تعمیراتی شعبے سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے چند افراد کی گرفتاری سے کہیں زیادہ پہاڑ جیسے اقدامات درکار ہیں، کیونکہ اس کے نہ صرف تعمیراتی شعبے بلکہ پورے شہر کے لیے بہت دور رس نتائج ہیں۔ ایس بی سی اے کراچی میں تمام تعمیراتی منصوبوں کو ریگولیٹ کرنے اور منظور کرنے کا ذمے دار ہے۔ اس کا کام یہ یقینی بنانا ہے کہ تمام تعمیراتی منصوبے بلڈنگ کوڈز اور حفاظتی معیارات کے مطابق ہوں۔ تاہم ایس بی سی اے جب بلڈنگ کوڈز اور حفاظتی معیارات پر پورا نہ اترنے والے تعمیراتی منصوبوں کی منظوری دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں غیر محفوظ عمارتیں اور مکانات تعمیر ہوتے ہیں جس سے ان میں رہنے والے لوگوں کی جان اور مال کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں، اور ہم شہر کراچی میں یہ روزانہ کی بنیاد پر دیکھتے بھی ہیں۔ ایس بی سی اے کے ان اقدامات کی وجہ سے ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ماحولیاتی ضوابط کی پروا کیے بغیر عمارتوں اور مکانات کی تعمیر کے نتیجے میں درختوں اور سبزے کی تباہی، اور قدرتی وسائل کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سے کراچی کے شہریوں کی صحت اور اْن کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جو پہلے ہی فضائی آلودگی، پانی کی کمی اور فضلہ ٹھکانے لگانے کے انتظام جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ ایس بی سی اے کی بدعنوانی نے پورے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کیونکہ یہ شہر ملک کی معیشت کا ستّر فی صد دیتا ہے، تعمیراتی شعبہ معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے اور اس کی ترقی ملک کی مجموعی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت کراچی میں صرف اس شعبے پر توجہ دے لے اور ناجائز اور رشوت خوری کا منظم دھندہ ختم کردے تو وطنِ عزیز کے قرضے کا بڑا بوجھ ختم نہیں تو کم ضرور ہوجائے گا۔ ان اداروں کی وجہ سے اس شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کم ہوئی ہے، کیونکہ سرمایہ کار ایسے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے میں محتاط رہتے ہیں جو بدعنوانی سے دوچار ہو۔ اس کی وجہ سے تعمیراتی شعبے کی ترقی میں کمی آئی ہے، جس کا مجموعی معیشت پر اثر پڑا ہے۔ ایس بی سی اے کی بدعنوانی صرف تعمیراتی شعبے تک ہی محدود نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایس بی سی اے کی بدعنوانی سے حاصل ہونے والی غیر قانونی رقم سندھ کے سیاسی رہنمائوں کو جاتی ہے، جو اسے اپنی ذات اور انتخابی مہم کے لیے فنڈز فراہم کرنے اور اپنے انتخابی حلقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہوا ہے اور آج شہر کراچی میں اصل نمائندوں کے بجائے پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن، اسٹیبلشمنٹ اور پیسے کے بل بوتے پر میئرشپ پر قبضہ کیا ہوا ہے، اسی لیے پیپلز پارٹی کو عوام کے مفادات کے تحفظ اور ان کی خدمت کے بجائے اپنی طاقت اور اثر رسوخ سے شہر پر قبضہ کرنے کی زیادہ فکر ہے۔
حکومت کو ایس بی سی اے اور مجموعی طور پر تعمیراتی شعبے سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے اور ساتھ ہی بدعنوانی کے مرتکب افراد کو سخت سزائیں دلوانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ بدعنوان افسران کچھ دنوں میں کرپٹ سیاست دانوں اور پولیس و متعلقہ اداروں کی ملی بھگت سے دوبارہ اپنے عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو نجی شعبے کے ساتھ مل کر پائیدار اور ماحول دوست تعمیراتی منصوبے تیار کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے جو لوگوں اور ماحولیات کی ضروریات کو پورا کرتے ہوں۔ تعمیراتی شعبے سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں میڈیا کا بھی اہم کردار ہے، جو بد قسمتی سے اشتہارات اور دیگر سیاسی وجوہات کی وجہ سے ناپید ہوچکا ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ ایس بی سی اے اور تعمیراتی شعبے میں بدعنوانیوں کی چھان بین اور مرتکب افراد کو بے نقاب کرتا رہے اور ذمے داروں کو احتساب کے کٹہرے میں لائے۔ میڈیا کو تعمیراتی شعبے میں بدعنوانی کے منفی نتائج اور شفافیت اور احتساب کی اہمیت کے بارے میں بھی عوام میں شعور اجاگر کرنا چاہیے۔