کراچی ہم سب کا ہے

1033

مضمون کے عنوان پر بات شروع کرنے سے پہلے ایک وضاحت کرنا ہے کہ پچھلے دنوں پی پی پی کے رہنما نے بیان دیا کہ کراچی میں جماعت اسلامی کے جیتنے کی وجہ ایم کیو ایم کا بائیکاٹ ہے ایم کیو ایم اگر انتخاب میں حصہ لیتی تو جماعت اسلامی کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ صاحب جواب دیں کہ 1979 اور 1983 میں ایم کیو ایم کا وجود بھی نہیں تھا اس وقت کراچی میں جماعت اسلامی نے جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو شکست دے کر دونوں مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی اس دفعہ بھی ایم کیو ایم کے تینوں گروپ نے اپنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے تھے پھر بلدیاتی انتخاب سے دو ہفتے پہلے گورنر سندھ کی کوششوں سے ایم کیو ایم کے تینوں گروپوں میں اتحاد بھی ہوگیا تھا وہ تین گروپ یہ تھے ایم کیو ایم خالد مقبول صدیقی، ایم کیو ایم فاروق ستار اور مصطفی کمال کی پی ایس پی۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے اتنی جاندار اور شاندار مہم چلائی تھی جس کا اعتراف کئی بار فاروق ستار نے بھی کیا تھا۔ تینوں گروپوں کے آپس میں مل جانے کے باوجود الیکشن میں حصہ لینے کی ہمت نہیں ہوئی اور ایم کیو ایم نے انتخابی عمل سے علٰیحدہ رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اسی حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ایم کیو ایم کافی عرصے قبل ہی کراچی کے عوام کا اعتماد کھو چکی تھی کہ وہ اسلحے کے زور پر پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کرکے رات نو بجے تک جعلی ووٹنگ کرتے جہاں چالیس ہزار ووٹ پڑتے وہ شام کے دو گھنٹے میں ایک لاکھ چالیس ہزار ہو جاتے یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوتا کہ 1986 سے 2016 تک ایم کیو ایم ہماری اسٹیبلشمنٹ کی اسی طرح آنکھوں کا تارا تھی جس طرح کچھ عرصے قبل تک عمران خان تھے۔

2002 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی عوامی پوزیشن پھر بھی مضبوط تھی اور اسے پرویز مشرف کی بھی حمایت حاصل تھی لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی نے کراچی میں چار نشستوں پر ایم کیو ایم کے اہم امیدواروں کو ہرایا تھا جماعت کی طرف سے کامیاب ہونے والوں میں عبدالستار افغانی (مرحوم) لئیق خان (مرحوم) محمد حسین محنتی اور اسد اللہ بھٹو تھے حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے اہم رہنما آفتاب شیخ کو شکست ہوئی تھی اور کراچی میں نسرین جلیل کو عبدالستار افغانی نے ہرایا تھا۔ اتنی وضاحت اس لیے کی گئی ہے کہ یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ اگر ایم کیو ایم کو کچھ بھی اپنے جیتنے کا یقین ہوتا تو وہ کسی صورت میں بلدیاتی انتخاب کا بائیکاٹ نہیں کرتی۔

کراچی سب کا ہے کہ موضوع پر پیر کے دن ایک اخبار میں ملک معروف صحافی اور دانشور جناب نفیس صدیقی کا مضمون شائع ہوا ہے، بعض معاملات میں ان کی معلومات کی کمی پر حیرت ہوتی ہے۔ 1979 میں جو پہلا بلدیاتی انتخاب ہوا تھا جس میں افغانی صاحب نے عبدالخالق اللہ والا کو ایک ووٹ سے ہرایا تھا ہمیں افسوس ہے کہ اس کامیابی کو کچھ صحافی حضرات ضیاء الحق انتظامیہ کے دبائو کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں، ’’جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1979 میں بلدیاتی انتخاب ہوئے پیپلز پارٹی بہت عتاب میں تھی اور بھٹو کی پھانسی کی وجہ سے کارکن اداس اور مایوس تھے اس کے باوجود ان بلدیاتی انتخاب میں پیپلز پارٹی کراچی لی اکثریتی جماعت بن کر ابھری (یہ صریحاً غلط ہے اس انتخاب میں جماعت اسلامی سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر ابھری تھی ویسے بھی یہ غیر جماعتی انتخاب تھے جماعت نے اخوت گروپ کے نام سے اور پی پی پی نے عوام دوست کے نام سے الیکشن لڑا تھا) پیپلز پارٹی کے یوسف عمر ڈیڈا آسانی سے میئر بن رہے تھے۔ فوجی حکومت نے پورا زور لگایا اور تین ووٹوں سے عمر یوسف ڈیڈا کو ہرا کر جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کو میئر منتخب کرایا گیا اس کے باوجود عمر یوسف ڈیڈا کراچی کے ڈپٹی میئر منتخب ہو گئے‘‘۔

اس تحریر میں کئی ابہام ہے ایک تو یہ کہ میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ایک ہی دن ہوا تھا جماعت کی طرف سے میئر کے لیے عبدالستار افغانی اور ڈپٹی میئر کے لیے طالب رسول امیدوار تھے اور عوام دوست اور دیگر سیاسی جماعتوں کے میئر کے متفقہ امیدوار عبدالخالق اللہ والا اور ڈپٹی میئر کے لیے یوسف عمر ڈیڈا تھے یہ کیسے ممکن ہوتا کہ یوسف عمر ڈیڈا بیک وقت میئر اور ڈپٹی میئر دونوں عہدوں کے امیدوار ہوتے اس وقت کے اخباری ریکارڈ گواہ ہیں کہ میئر کے دونوں امیدواروں (عبدالستار افغانی اور عبدالخالق اللہ والا) کو برابر برابر یعنی 79..79 ووٹ ملے تھے 2ووٹ عبدالخالق اللہ والا کے مسترد ہوئے تھے اور ایک ووٹ عبدالستار افغانی کا مسترد ہوا تھا اس طرح عبدالستار افغانی ایک ووٹ سے میئر کا الیکشن جیت گئے تھے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ووٹ سے جیت یا ہار نہیں ہوتی اور پھر یہ کہ مجھے حیرت ہے کہ 44 سال کے بعد یہ نکتہ اٹھایا جارہا ہے کہ فوجی دبائو سے یوسف عمر ڈیڈا کو ہروایا گیا جبکہ یوسف عمر ڈیڈا تو میئر کے امیدوار ہی نہیں تھے۔ ہاں عبدالخالق اللہ والا نے 1977 میں پی پی پی کی طرف سے برنس روڈ سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا ان کے مقابلے پر پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے عبدالحمید چھاپرا امیدوار تھے پھر پی این اے کے بائیکاٹ کی وجہ سے صوبائی انتخاب نہیں ہوسکے۔ 1983 کے دوسرے بلدیاتی انتخاب میں عبدالستار افغانی نے اپوزیشن کے، متفقہ امیدوار (اس اتحاد میں پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں) حسین ہارون کو 19ووٹوں سے شکست دی البتہ ڈپٹی میئر کے لیے عبدالخالق اللہ والا جیت گئے۔ قارئین کی معلومات کے لیے ایک بات اور بتاتے چلیں کہ بھٹو کے خلاف جو تحریک کراچی میں چل رہی تھی اس میں خواتین بڑے جوش خروش سے پیش پیش تھیں جہاں ایک طرف بیگم غفور خواتین کے جلسے جلوس کو لیڈ کررہی تھیں وہیں دو خواتین لیدڑوں نے کراچی کی خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے بھرپور مہم چلائی وہ دونوں خواتین ایک محمودہ سلطانہ اور دوسری شاہدہ نفیس صدیقی تھیں، محمودہ سلطانہ تو مسلم لیگ کے لیڈر شیخ لیاقت حسین کی بیوی اور سابق رکن قومی اسمبلی مرحوم عامر لیاقت کی والدہ تھیں اور شاہدہ نفیس صدیقی این پی پی کے لیڈر نفیس صدیقی کی بیگم تھیں اب یہ معلوم نہیں کہ وہ نفیس صدیقی وہی ہیں جو ایک کثیرالاشاعت اخبار میں کالم لکھتے ہیں جن کے جواب میں، میں نے یہ کالم لکھا ہے یا وہ اور نفیس صدیقی ہوں اللہ بہتر جانتا ہے۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں۔ ’’یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی میں پیپلز پارٹی کا شروع ہی سے بڑا ووٹ بینک موجود ہے‘‘۔ یہ بات درست نہیں ہے کراچی کے کچھ خاص علاقوں اور چاروں طرف کے گائوں گوٹھوں میں تو اس کے اثرات ہیں اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ مضمون نگار نے 1970 کے انتخاب کا ذکر کیا ہے اس وقت کراچی میں قومی کی سات نشستیں تھیں جن میں سے 2پر پیپلز پارٹی (عبدالحفیظ پیر زادہ اور عبدالستار گبول) 2 پر جمعیت علمائے پاکستان کے (شاہ احمد نورانی اور علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری) جبکہ 3پر جماعت اسلامی کے (پروفیسر عبدالغفور، محمود اعظم فاروقی اور مولانا ظفر احمد انصاری) کامیاب ہوئے تھے اس طرح پیپلز پارٹی کو اس وقت کراچی سے 30فی صد اور دینی جماعتوں کو 70فی صد ووٹ ملے تھے موجودہ بلدیاتی انتخاب میں بھی سب سے زیادہ ووٹ جو 5لاکھ کے قریب ہے جماعت اسلامی کو ملے ہیں 4لاکھ کے ارد گرد تحریک انصاف کو ملے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کو ڈھائی اور تین لاکھ کے درمیان ووٹ ملے ہیں۔