ریکارڈ درست کیجیے

3332

آج کل جمعیت علمائے اسلام (ایف) کے ایک سابق رْکن صوبائی اسمبلی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق پر جھوٹا اور من گھڑت الزام لگایا گیا ہے کہ اْنہوں نے اپنے دور ِ وزارت میں انسداد نجی سْود کے قانونی مسودہ میں ایک شق شامل کی تھی جس کی رْو سے نجی قرضہ پر مناسب شرح پر سْودی منافع دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سراج الحق کی وزارت کے دونوں ادوارِ میں ایسا کوئی بل صوبہ خیبر پختون خوا کی اسمبلی سے منظور نہیں کیا گیا جس میں قرض پر سْود کو کسی بھی صورت جائز قرار دیا گیا ہو۔ بحیثیت وزیر خزانہ اور سینیٹر سراج الحق کی تمام جدوجہد کا محور سْود سے پاک معیشت اور سْود سے پاک بینکاری کا قیام رہا ہے۔ یہ بات ہر خاص وعام کو معلوم ہے کہ ایم ایم اے دور حکومت (2002-2007) میں جب سراج الحق پہلی مرتبہ صوبائی وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے پہلے ہی سال میں مرکزی حکومت، بیوروکریسی، سیکولر سیاسی جماعتوں اور سیکولر عناصر کی شدید مخالفت کے باوجود بینک آف خیبر میں غیر سودی بینکاری کا آغاز کیا اور اْسے قانون سازی کے ذریعے تحفظ دیا۔ اس پورے عمل میں اْنہیں پروفیسر خورشید احمد، مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی، مولانا مفتی تقی عثمانی اور مولانا مفتی غلام الرحمن کی راہنمائی اور تعاون حاصل رہا۔ جناب سراج الحق کے دورِ وزارت میں ایک معاشی اصلاحات کمیشن جسٹس فدا محمد خان کی سربراہی میں قائم کیا گیا جس نے صوبہ خیبر پختون خوا میں نظام معیشت اور حکومتی بزنس کو اسلام کے معاشی نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اور سْود سے پاک معیشت شروع کرنے کے لیے ایک رپورٹ قاضی حسین احمدؒ، مولانا فضل الرحمن اور ایم ایم اے کے دیگر مرکزی قائدین کی موجودگی میں اْس وقت کے وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کو پیش کی۔ ایم ایم اے کے دورِ حکومت میں جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق گروپ) سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی اکرام اللہ شاہد نے نجی شعبے سے سْود کے خاتمے کا بل صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جو بیوروکریسی کے روایتی ہتھکنڈوں اور جمعیت علماء اسلام (ف) اور (س)کے باہمی مخاصمت اور چپقلش کی وجہ سے دوسال تک زیراِلتواء رہا۔ اکرام اللہ شاہد کا یہ بل، سراج الحق اور جماعت اسلامی ارکان اسمبلی کے تعاون سے بالآخر اسمبلی سے پاس ہو کر باقاعدہ قانون بن گیا مگر اس قانون پر بعد کی حکومت نے عمل درآمد نہیں کیا۔ سراج الحق جب پرویز خٹک کی کابینہ میں دوسری مرتبہ (2013ء) وزیر خزانہ بنے تو اسی حوالے سے ایک بل اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروایا۔ ابھی یہ بل صوبائی اسمبلی میں بحث کے لیے پیش بھی نہیں ہوا کہ اس امر کی نشاندہی ہوگئی کہ مذکورہ بل میں ’’ظالمانہ سْود‘‘ پر پابندی لگانے کی شق تو شامل ہے مگر نجی قرضوں پہ مناسب شرح پر سْودی منافع کے نام پر ایک اور شق بھی بیوروکریسی نے بہت چالاکی کے ساتھ شامل کر دی ہے۔ جناب سراج الحق نے فوری نوٹس لیتے ہوئے 3جون 2014ء کو ایک خصوصی جائزہ کمیٹی تشکیل دی جس میں جیدّ علماء کرام مولانا ڈاکٹر عطا الرحمن، پروفیسر سید محمد عباس اور سابق ڈپٹی اسپیکر اکرام اللہ شاہد شامل تھے۔ جناب سراج الحق نے واشگاف انداز میں اعلان کیا کہ سْودی لین دین اور اس کا منافع حرام ہے اور ہم سْودی نظام کا مکمل خاتمہ کرکے دم لیں گے۔ خصوصی کمیٹی کے پہلے اجلاس (منعقدہ5 جون 2014ء) کی صدارت کرتے ہوئے جناب سراج الحق نے بحیثیت وزیر خزانہ ہدایت کی کہ بل کے مسودے سے ایسی تمام شقوں کو نکال دیا جائے جن سے کسی بھی طور سْودی منافع کو جواز ملتا ہو چنانچہ ماہر قانون اور علماء کرام کی تجاویز کی روشنی میں ایک نیا مسودہ تیار کیاگیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق رکن صوبائی اسمبلی، جو آج جماعت اسلامی پر بے الزام لگا رہے ہیں، نے مذکورہ بل پر خود یا جمعتی علماء اسلام (ف) کے دیگر ارکان اسمبلی میں سے کسی نے صوبائی اسمبلی میں مخالفت کی اور نہ کسی ایک شق سے اختلاف کیا اور نہ ہی بل میں اصلاح کی کوئی تجویز دی لیکن جب دیگر ماہرین قانون پروفیسر محمد مشتاق (بن الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد) اور مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمن (جامعہ تفہیم القرآن مردان) نے بل کے مسودے کی اصلاح کردی تو موصوف نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں وہی تجاویز جمع کروا دیں جو پروفیسر محمد مشتاق صاحب پہلے ہی مسودے میں تجویز کر چکے تھے۔

جناب سراج الحق کے رکن سینیٹ بننے کے بعد جماعت اسلامی کے ارکان صوبائی اسمبلی سعید گل اور اعزاز الملک افکاری نے خیبر پختون خوا کی اسمبلی سے پورے ملک میں سْود کے خاتمے اور صوبے میں نجی سْودی لین دین پر پابندی کے حوالے سے قرارداد اور قانونی بل تمام جماعتوں کی حمایت سے متفقہ طور پر منظور کروایا۔ عوامی اور خصوصاً دینی حلقوں نے خیبر پختون خوا اسمبلی کی متفقہ قرار داد کی تحسین کی جس کے تحت کسی بھی قسم کا نجی سْودی لین دین اور سْودی منافع غیر قانونی قرار پائے گا اور مرتکب افراد کو 3 تا 10 سال تک قید کی سزا اور 10 لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہوگا۔ جماعت اسلامی کی اس کامیابی پر جے یو آئی (ف) کے ایک سابق رکن صوبائی اسمبلی نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے حقائق کے منافی اور بدنیتی پر مبنی ویڈیو بیان کے ذریعے جناب سراج الحق کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کردیا جس سے اسلامی نظام اور اسلامی نظام معیشت کے لیے دینی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد اور خوشگوار باہمی تعلقات کو نقصان پہنچا حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں گزشتہ بیس سال میں سْود کے خلاف سب سے موثر، تاریخی اور عملی جدوجہد جناب سراج الحق نے کی ہے۔

جماعت اسلامی نے پارلیمنٹ عدالتوں بلکہ ہر پبلک فورم پر سْود کے خاتمے، غیر سْودی معیشت اور اسلامی بینکاری کی ترویج کے لیے پْرزور تحریکیں اور عملی کاوشیں کی ہیں۔ آج بھی پارلیمنٹ، اخبارات اور رسائل میں سید ابوالاعلیٰ مودودی، سراج الحق، پروفیسر خورشید احمد، مولانا عبدالکبر چترالی اور مشتاق احمد خان کی تقاریر اور تحریریں موجود ہیں۔ اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ جماعت اسلامی کے سابق صوبائی امیر مولانا گوہر رحمان نے 1991ء میں وفاقی شریعت عدالت میں سْودی نظام کے خاتمے اور حرمت سْود پر جامع دلائل پیش کیے جس کی روشنی میں وفاقی شریعت عدالت نے 24 نومبر 1991 کو متفقہ فیصلہ دیا کہ بینکوں کا سْود وہی ’ربا‘ ہے جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔ بعدازاں عدالت عظمیٰ کے شریعت ایپلیٹ بنچوں نے 23 دسمبر 1999 کو اس فیصلے کی توثیق کی اور حکم دیا کہ جون 2001 تک سودی معیشت کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وفاقی شریعت عدالت میں جماعت اسلامی نے ایک اور پٹیشن داخل کی۔ جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت بشمول امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق عدالتی سماعتوں میں خودپیش ہوتے رہے بالآخر 28 اپریل 2022 (بمطابق 26 رمضان 1443 ہجری) کو وفاقی شریعت عدالت نے ہر قسم کے سود کو حرام قرار دے دیا اور حکومت ِ پاکستان کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر سْود کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے، سْودی معیشت کا مکمل خاتمہ کرے اور سْود سے پاک اسلامی معیشت شروع کرے۔

جماعت اسلامی پاکستان دینی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے اور دینی اْمور پر تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے ساتھ مشترکہ جدوجہد اور متفقہ موقف اختیار کرتی ہے لیکن کچھ غیر سنجیدہ اور شرارتی عناصر وقتاً فوقتاً سستی شہرت کے لیے جماعت اسلامی کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اکابرین کو چاہیے کہ عوام الناس میں نفرت اور غلط فہمیاں پھیلانے والے ارکان کی تربیت کریں اور انہیں مثبت طرزعمل اختیار کرنے کی ہدایت فرمائیں تاکہ اسلامی نظام اور اسلامی نظام معیشت کے قیام کی جدوجہد کو نقصان نہ پہنچے اور دینی جماعتوں کی جگ ہنسائی نہ ہو۔