یہ بازی کس نے ہاری ہے؟

972

کراچی کے مئیر کے لیے انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوا۔ نتائج کو دیکھ کر مجھے کبھی تو سید نا حسینؓ اور یزید کی یاد آتی اور کبھی کراچی کے مظلوم عوام کا تاریک مستقبل نظر آتا، کبھی ایسے لگتا کرپشن کی وجہ سے جن لوگوں نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ ہونے کے قریب کر دیا پھر کراچی پر وہ حکمرانی کریں گے۔ ایسے سوچتے سوچتے جہاں مجھے حافظ نعیم الرحمن جیسے دیانتدار، محنتی اور کراچی کے حقوق کی جنگ لڑنے والا شخص نظر آیا تو احمد فراز کی نظم یاد آگئی:

کب یاروں کو تسلیم نہیں، کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے
جب سازِ سلاسل بجتے تھے، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے، یہ رسم ابھی تک جاری ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی، پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
کس زعم میں تھے اپنے دشمن، شاید یہ انہیں معلوم نہیں
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے

ایسے لگا جیسے حافظ نعیم الرحمن ہار کر بھی جیت گئے، پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد مرتضیٰ وہاب میئر کراچی منتخب ہو کر بھی ہار گئے۔ پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی ریت کوئی نئی نہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ پارٹی قومی اسمبلی کی 313 نشستوں میں سے 167 پر کامیابی حاصل کر کے اکثریتی جماعت بنی تھی جبکہ اس کے مدمقابل پیپلز پارٹی صرف 80 نشستیں ہی حاصل کر پائی تھی، تاہم عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم نہ کیا گیا اور اقتدار عوامی لیگ کے حوالے نہ کیا گیا اور نتیجتاً ملک دو لخت ہو گیا۔ 1971 میں بھی پیپلز اور ذوالفقار علی بھٹو کا کردار گھناؤنا تھا اور آج بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کا کردار ملک کو تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے۔ اگر سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پیپلز پارٹی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے فن میں ماہر سمجھی جاتی ہے اور موجودہ دور میں سابق صدر آصف علی زرداری کو سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر ترین کھلاڑی سمجھا جاتا ہے۔ مرتضیٰ وہاب کی کامیابی گزشتہ روز ہونے والے انتخابی عمل یا چند روز کا قصہ نہیں بلکہ ایک جامع منصوبہ بندی نظر آتی ہے کہ پہلے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کے حوالے ٹال مٹول کرتی رہی اور حتیٰ الامکان کوششیں کی گئیں کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوں۔ پیپلز پارٹی پر نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان حلقہ بندیوں سے صرف پیپلز پارٹی ہی کو فائدہ پہنچا ہے جبکہ ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کو ان حلقہ بندیوں سے نقصان ہوا ہے۔ ایسے لگتا ہے ملک کے ہر طبقہ وہ صحافی ہوں یا سیاستدان کسی کو بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کی بددیانتی پر مبنی ادا پسند نہیں آئی، تجزیہ کار طلعت حسین کہتے ہیں کہ کراچی سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے تاہم مرغی کا گلا نہیں مروڑا جاتا۔ پیپلز پارٹی نے میئر شپ کے لیے سیاسی طور پر بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر پیپلز پارٹی کو جمہوری طرز عمل کے تحت جس کے زیادہ نمبرز تھے اسے آنے دینا چاہیے تھا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ 36 کروڑ روپے میں میئر کراچی کا عہدہ پیپلز پارٹی کے لیے برا سودا نہیں ہے، ’’پہلے ہی دبئی میں خرید و فروخت کی منڈی لگا دی گئی ہے۔ حافظ نعیم کو خرید و فروخت میں شکست ہوئی لیکن عوام میں نہیں‘‘۔ سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے لیے سادہ اکثریت کے بغیر معاملات کو لے کر چلنا آسان نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے غائب ارکان کے منظرعام پر آنے کے بعد اور کیا انہوں نے اپنا الگ فاروڈ گروپ بنا لیا ہے؟

سندھ کو موہنجو داڑو کے کھنڈرات سے بھی بدتر حالت میں پہنچانے والی سندھ کے چند اندرونی اضلاع کے وڈیروں کی پارٹی پیپلز پارٹی نے کراچی میں عالمگیر انقلاب اسلامی کی داعی جماعت اسلامی کے ’’مینڈیٹ‘‘ پر شب خون مارتے ہوئے میئر و ڈپٹی میئر کے عہدہ ہتھیا لیے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے حتمی نتائج کے مطابق مخصوص نشستیں ملا کر پیپلز پارٹی کو کراچی میں 155، جماعت اسلامی کو 130، تحریک انصاف 63، مسلم لیگ 14، جے یو آئی 4، ٹی ایل پی کو ایک سیٹ ملی۔ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات میں پی پی پی کو 173 ووٹ ملے جبکہ جماعت اسلامی کو 160۔ پی پی پی کو (ن) لیگ کے 14اور جے یو آئی کے 4ووٹ ملے جبکہ جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کے 63 ووٹوں میں سے 30ووٹ ملے ایک رکن فردوس شمیم نقوی کے پولنگ اسٹیشن پر موجود ہوتے ہوئے ووٹ نہیں ڈالا۔ ٹی ایل پی کا رکن ووٹ ڈالنے نہیں آیا۔ تحریک انصاف کے 30ارکان غیر حاضر تھے۔ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ پی پی پی نے انہیں اغوا کرلیا ہے۔ عمران خان سے ملاقات کے بعد سے حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی کے پاس 193 ووٹ تھے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک آصف علی زرداری جیسے کرپٹ عناصر منتخب نمائندوں کی بولیاں لگاتے رہیں گے خاص طور پر ایسے شہر میں جو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ کراچی مملکت کی اہم معاشی شہ رگ ہونے کے ناتے معیشت کی عالمگیریت کو جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر رہنے پر مجبور بھی رہا ہے۔ عام جرائم کے ساتھ ساتھ غیر قانونی پرتشدد سرگرمیاں جن کا مقصد روزمرہ زندگی کے لیے پیسے کا حصول ہے، سیاست کو جرائم کے ساتھ بھی جوڑتا نظر آتا ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی اور مالیاتی دارالحکومت ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اس میں ملک کی کل آبادی کا 10 فی صد شامل ہے، جی ڈی پی میں کراچی 28 فی صد حصہ دیتا ہے، وفاق میں 60 فی صد ریونیو اور صوبہ سندھ میں 70 فی صد حصہ شامل کرتا ہے، شہر قائد کے معاشی اور مالیاتی کردار میں کئی دہائیوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی، گو کہ یہاں فرقہ ورانہ تشدد سے لے کر نسلی و لسانی پرتشدد سیاست کا ایک بڑا اہم کردار رہا ہے۔ کراچی بلکہ پاکستان کی عالمی دہشت گردی کی پناہ گاہ کے طور پر امیج کے خراب ہونے سے رک جانے والی سرمایہ کاری ابھی تک بحال نہیں ہو سکی۔ گو کہ پاکستان اہم سمندری بندرگاہ اور پورٹ بن قاسم کا وجود کھنے کے باوجود ان ثمرات سے حقیقی معنوں میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکا، جو کراچی اور پاکستان کا حق تھا۔ اس کی بنیادی وجہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم ہیں۔ جن کے لیے حبیب جالب نے کیا خوب فرمایا تھا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر درد مندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا