قوموں کی زندگی عروج و زوال کی داستانوں سے بھری پڑی ہیں اجتماعی اور انفرادی حیثیت سے بھی عروج و زوال کی داستانیں چشم کْشا اور عبرت آموز ہیں، مگر انسان خطا و نسیاں، نادانی کا پْتلا ماضی کی داستاںِ حقائق سے کچھ حاصل نہیں کرتا، حتیٰ کہ دور ِقدیم اور دور ِجدید میں بے شمار اور ان گنت حالات و واقعات انسان کی اصلاح اور درْستی کے لیے تاریخ کے اوراق پر مثال عبرت کے طور موجود ہیں، مگر انسان کی فطرت ثانیہ یہ ہے کہ وہ گزرے ہوئے یا حال کے واقعات سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا یاد رکھیں قومیں یا انفردی صورت میں جو ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتے وہ کبھی بھی ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکتیں، نہ کہ اپنی ہر کوتاہی اور غلط فیصلے پر ڈھٹائی سے ڈٹا رہنا اور یہی بات اس کی ناکامی کا پہلا سبب بنتی ہے۔
سب سے بڑی نادانی یا فطری کمزوری یہ سمجھ لیجیے جب انسان کْرسی اقتدار پر بْراجمان ہوتا ہے تو پھر وہ اپنے آپ کو عقل ِ کْل یا مکمل با اختیار ہو نے کے ناتے یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ مجھے بھی ایک روز کسی مقتدر ہستی کے سامنے جوابدہ ہونا ہے، اس لیے اسلامی نظام حیات میں اقتدار کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کو مختص کیا گیا ہے، تاکہ ہر ذی شعور اور ذی ہوش یہ سمجھے اور اپنے ذہن و فکر میں یہ بات ہر وقت جاں گزیں اور پیش نظر رکھے کہ مجھ سے ایک بڑی طاقت، طاقت قاہرہ بھی موجود ہے جو میرے ظاہر و باطن کی ہر لمحے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے کی نگرانی کر رہا ہے اور مجھے ایک نہ ایک دن اس کی عدالت میں جوابدہ بھی ہونا ہے۔
نشہ اختیار اور کْرسی اقتدار، انسان سے ایسے کارنامے خیر و شر سرزد کراتا ہے جو اْسے سب خوشنْما اور احسن ہی نظر آتے ہیں، جیسا کہ آج کل، خواہ وہ کارنامے خیر ہوں یا شر، کیونکہ اقتدار کی حالت میں اس کے پاس ان کے مشیر بھی ان کے اچھے و برے کارناموں میں شب و روز سب ٹھیک ہے کہ راگ الاپتے ہوئے اقتدار میں موجود رہ کر اپنے مقاصد پورا کرنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں اور یہی وہ مشیر ہوتے ہیں جو اعلیٰ سے اعلیٰ قیادت کو مصیبت اور بْرے وقت میں چھوڑ کر، اور اپنا دامن جھٹک کر کسی اور کی پوجا میں مصروف ہو جاتے ہیں جس کی بہترین مثال عمران خان کی ہے، جو حکمرانوں کے لیے عبرت کا نشاں ہے گر کوئی سمجھے۔ اس لیے نظام اسلامی میں فرمانرواں اور مقتدر ہستیوں کے لیے سب سے اوّل اور اہم خوف ِ خْدا کا ادراک ہے، اور یہ ادراک روز اوّل ہی سے ذہن نشین کرایا جاتا ہے، تاکہ انسان لغرزشوں کوتاہیوں اور مداح سرائی کے نتیجے میں بے لگام یا بے راہ روی کا شکار نہ ہو جائے، مگر جب یہ انسان حکمرانی کے منصب پر بْراجماں ہوتا ہے اپنے آپ کو ہی مقتدر سمجھنے لگتا ہے تو پھر اس سے خیر اور بھلائی کی توقع کم اور شر و فساد، بدعنوانیوں، بد اعمالیوں اور طرح طرح کے گھنائونے اعمال و افعال سر زد ہونے کی توقع جنم لینے لگتی ہیں۔ اقتدار اور اختیار حکومت کا نشہ انسان کو فہم و فراست، عقل و شعور، ادراک، عدل و انصاف و حق اور تمام معروضات سے بے بہرہ کر دیتا ہے اور پھر وہ نشہ ٔ اقتدار میں اپنے اور اپنے ہم خیال و ہم نواوں کو ہی عقل کْل اور عقل و شعور کا مجسمہ سمجھنے لگتے ہیں۔
جمہوریت یا کوئی بھی نظام سلطنت ہو اپنے عمل اور کردار سے عوام الناس کو عدل و انصا ف اور حقوق انسانی،کی کما حقہ ادائیگی کا تصور رکھ کر ان کے ساتھ معاملہ کرے تو پھر ممکن ہے وہ افراتفری، تعصبات، تنگ نظری، حق تلفی، مساوات، عدل و انصاف سے محرومی کا شکار نہ ہو، مگر ہماری 75 سالہ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ جب ہم اقتدار اعلیٰ حاصل کر کے دْنیا کی چمکتی دمکتی اور دلفریب رعنائیاں میں یوں گم ہو جاتے ہیں کہ ہمیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ہم اس منصب کو حاصل کرنے کی جستجو میں قوم سے کیا عہد و پیما، وعدہ کرکے آئے تھے، مگر دْنیا کی لبھانے والی رعونیت و تکبر اسے قہاروں اور جباروں کی طرف مائل کردیتی ہے تو پھر حکمرانوں کی آنکھوں پر فرعونیت کا چشمہ ان کو انصاف کے تقاضوں سے کوسوں دور کردیتا ہے، حکمرانی کا رعب و دبدبہ خشوع و خضوع احساس و خیال تک اس کے دل میں باقی نہیں رہنے دیتا، بلکہ اقتدار اور حکمرانی کا نشہ اس سے ایسے کام سر انجام دلاتا ہے کہ جب وہ اقتدار سے اْٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے تب اس کو یہ احساس ہوتا ہے کہ فلاں کام فلاں حکم جو میں نے نافذاور جاری کیے تھے مجھے نہیں کرنے چاہیے تھے، مگر اقتدار کے زعم ِ باطل میں اسے خیال تک نہیں آتا کہ یہ اقتدار کسی کے ساتھ دائمی وفا نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کا مقرر وقت ہی اس کو ملتا ہے، مکافات عمل کے تحت ایک دن اس کو اقتدار سے سبکدوش ہونا ہی پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعاگوں ہوں کے پاک پروردگا ر ہم پر رحم فرما ہم جو کچھ کاٹ رہے ہیں اپنا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں۔
اے پروردگار اس مملکت پاکستان میں اللہ اور اس کے رسول کے نظام کو اس ملک میں نافذ و عمل کروانے میں اْن لوگوں کی مدد فرما جن کو تو پسند کرتا ہے اور حکمرانی اْن لوگوں کے ہاتھ میں دیجو جو اپنے دل میں تیرا خوف اور روز محشر اپنے ربّ کو جوابدہ ہونے کا خوف بھی رکھتے ہوں۔