آدھی محبت کی ادھوری کہانی

988

ایک تھا ’’نظریہ‘‘ وہ اکیلا تھا اس کے ساتھ کوئی بھی نہیں ملتا تھا جو بھی اس کو ’’اوڑھ‘‘ کر سوتا اس کے دن کا چین اور رات کا سکون تباہ ہو جاتا تھا وہ پھر اسی کا ہوکر رہ جاتا تھا اور اسے اس کیفیت میں مبتلا دیکھ کر اس کے سنگی ساتھی بہت تلملاتے اور اتنی ہاہا کار مچا دیا کرتے کہ یا تو ’’نظریہ‘‘ اتنی زیادہ بیزاری دیکھ کر خود ہی اُڑ جاتا یا اُسے اوڑھنے والا اس کی بکل اُتار کر ہوا میں اُچھال دیا کرتا یوں ’’نظریاتی محبت‘‘ کی کہانی جدید دور میں ہمیشہ ادھوری ہی رہی۔ سنا ہے کہ جب ’’نظریہ‘‘ پیدا ہوا تھا تو اس کے بانی نے اسے نمو دینے کے لیے اتنا خون جگر پلایا تھا کہ نہ صرف ان کا جگر سوختہ ہوا بلکہ اس نظریے کی پرورش میں دن رات کے آرام وسکون کی کمی اور قید وبند کی صعوبتوں میں ناقص خوراک کی فراہمی نے گردے بھی ناکارہ کر دیے اسی پر بس نہیں ہوا اس کثیر الاولاد بانی ٔ نظریہ نے اپنی اولاد کو دینے والا وقت، مال اور توجہ بھی نظریے پر لگا دیا نتیجے میں چار چھے بچے نظریاتی نکل آئے تو دو تین کے دلوں میں کجی آ گئی مگر پھر بھی نظریے کی محبت اولاد کی محبت پر حاوی رہی مگر یہ گئے وقتوں کی بات ہے اس کے بعد کے ادوار میں ان قربانیوں کی گونج باقی رہ گئی اور تکمیل محبت کے علم اٹھا کر پیار کرنے والوں نے بڑی قربانیاں دیں لاتیں، گھونسے، گولیاں اور گالیاں سب کھائیں مگر نظریے کے علم کو گرنے نہیں دیا آندھیوں کے جھکڑ چلے بستیاں بسیں ویران بھی ہوئیں اجڑ کر بسنے والے نظریاتی عاشق آتے جاتے رہے نظریہ وہیں کا وہیں رہا کہنے والے کہتے رہے، ’’یہ مس فٹ ہے اس کی جڑیں زمین کے اندر نہیں ہیں یہ سطح پر ہی موجود ہے بڑی آسانی سے اسے کاٹ کر باطل کی پیوند کاری کی جا سکتی ہے‘‘۔

مگر ناں جی پیوند کاری تو دور کی بات اس کے عاشقوں نے اسے اس طرح دبوچ رکھا تھا کہ سروں پر پڑتے ڈنڈوں کی بھی پروا نہیں کی تبھی تو ان میں سے اکثر پیاروں کے سروں پر پڑتے ڈنڈوں نے تین، تین مرتبہ سر کھول کر رکھ دیا طبیبوں نے اعلان کر دیا کہ اب کے یہ سر کھلا ناں تو بندہ بچ نہیں پائے گا کہا گیا خیر ہے بندہ نہیں بچتا نہ سہی نظریہ بچانا ہے، یہی ہوا نظریہ بچا اور بندے مرتے چلے گئے ایک ایک شہید کی قبر پر آج بھی یہ نظریہ کتبوں کی صورت اور اس کے گھر میں یادوں کی صورت موجود ہے مگر اب کے برس دجل کی کیسی ہوا چلی کہ سب کچھ بہا کر لے گئی اک نظریہ ہی تو بچا تھا ہم خاک نشینوں کے پاس سو اس کو بھی زخمی کرتی ہوئی ہوا اپنے ساتھ دیگر کثافتوں اور آلائشوں کے ڈھیر کو اس کے زخموں پر نمک کی مانند چھڑکتی ہوئی گزر گئی۔ کچھ سرپھرے کہتے رہے یہ دجال کا شکنجہ ہے مگر وہاں سے آواز آئی نہیں… ’’اب سے زمانہ ہمیں جاننے لگا ہے‘‘۔

’’سنو! دیکھو! اتنے عرصے سے ہمارا نام تہہ تیغ سنگ رہا ہم آشفتہ سروں نے محبت کی داستانیں رقم کیں مگر کبھی دلنواز لے پر ہمارے گیت نہ گائے گئے ہم نے نیزوں پر سروں کو پرو دیا پھر بھی نہ ہم سنوائے گئے لو دیکھو گونج اٹھی ہیں تکبیریں کیا ہوا جو طبلے کی تھاپ پر رقص شرر کے کھیل کے ساتھ ہیں، ہے تو ہمارے ربّ العالمین ہی کی حمد و ثنا، یہ وہی نغمہ جاں فزا ہے جسے وقت کے فرعون کے سامنے گانا تھا،کیا ہوا جو ڈھول فرعون مصر کا ہے پر گیت تو ہمارا اپنا ہے‘‘۔ کیسے کہوں کس کو سناؤں جس گیت کو فرعون کے ڈھول کی تھاپ پر لہرا لہرا کر تم گا رہے ہو اس کے سروں میں سامراجی قوتوں کی بازگشت ہے مگر تم تو اسی پر جھوم اٹھے یہ جانے بغیر کہ

توہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے

سنو جو کہتے ہو آج زمانہ مجھے سن رہا ہے کیا حاجرہ کی سعی کو بھول گئے؟ اسے معلوم تھا کہ اسے سننے والا اس ایک ربّ کے سوا کوئی بھی نہیں پھر بھی وہ اپنی سعی کرتی رہی صفا سے مروہ تک اور مروہ سے صفا تک پکارتی چلی گئی، جس زم زم سے تم سیراب ہوتے ہو وہ گروہ کثیر کو سنا سنا کر تو نہیں نکالا گیا تھا پھر تمہیں کیوں یہ لگنے لگا کہ اب تمہیں سنا جا رہا ہے اگلی فتح تمہاری ہوگی۔؟ دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے آخری پروگرام کی حاضری دیکھ کر بتاؤ کہ جب تمہیں چند لوگ ہی سنتے تھے تو تمہاری حاضری کتنی ہوا کرتی تھی اور اب بقول تمہارے، تمہیں دنیا سنتی ہے تو تمہاری حاضری کتنی ہے؟؟۔ سنو جب سامعین میں بندے ہوا کرتے ہیں وہ محفل زیادہ طاقتور ہے یا جہاں ان بندوں کا ربّ تمہارا سامع ہوتا ہے وہ زیادہ طاقتور ہے؟

نظریاتی محبت میں افراد کی گنتی نہیں ان کا وزن اہم ہوا کرتا ہے۔ باطل تو ہر دور میں کثیر تعداد میں حاوی رہا ہے امر وہی ہوا جو قیمتی مگر قلیل تھا، فاتح زمانہ تو بہت سے آئے اور گئے مگر جس نے زمانے کو ہی بدل دیا وہ اذن ربی سے گروہ قلیل سے اٹھنے والے گمنام سپاہی ہی تھے، غار حرا کی خلوتوں سے اٹھنے والی آواز اس بات کی مکلف ہرگز نہ تھی کہ اسے کون کون سنتا ہے اور یہ تعداد بڑھانے کی خاطر ابو لہب سے تعلق جوڑنا ہے، عمر بن خطاب کے ساتھ چلنا ہے یا ابوجہل کی سمت جھک جانا ہے یہ سوچنے کے بجائے دل سے وہ دعا کی کہ جس کا ثمر عمر بن خطاب کو ایمان کی صورت ملا اور ایمان کا ملاپ ایمان کے ساتھ ہی ہوا، صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ کے کفار کے جن مومنین کے ساتھ معاملات طے پائے ان کے ایمان کی حدت سے یقین کامل نمو پاتا تھا کجا کہ ایسے افراد کہ معاہدے کی صورت میں باطل کی طرز سے متاثر ہو کر ان کے حمایتی بن جائیں۔

یہ بات یاد رکھنے والے شاید کم رہ گئے ہیں کسی کا مردہ ’’بھٹو‘‘ بھی زندہ رکھا جاتا ہے اور کسی کا زندہ نظریہ بھی نیم مردہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وقت وقت کی بات ہے کہیں پوری محبت کی کہانی ادھوری چھوڑ دی جاتی ہے تو کہیں آدھی ادھوری محبت کی تکمیل کی خاطر پیوند کاری سے بھی گریز نہیں کیا جاتا کیجیے پیوندکاری ہی کا زمانہ ہے کلوننگ شدہ نسل کے ساتھ کلوننگ شدہ نظریات بدلتے وقت کا تقاضا سمجھے جا رہے ہیں۔

ہر شخص یہاں اپنی اپنی گواہی کا مکلف ہے پڑھنے والے پڑھ لیں کہ اس تحریر کے ذریعے میں نے بقلم خود اپنی گواہی دے دی ہے۔ کل بھی میرا نظریہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تھا اور آج بھی میرا نظریہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اس کے لیے کسی نئے لیڈر کی قطعی حاجت نہیں کہ میرا لیڈر کل بھی محمد مصطفیؐ تھے،آج بھی میرے لیڈر محمد مصطفیؐ ہیں اور ان شاء اللہ حیات بعد از موت بھی میرے لیڈر محمد مصطفیؐ ہی رہیں گے۔ دنیا کی زندگی میں جتنے امراء اور اکابرین میرے نبی کریمؐ کا اتباع کرنے والے ان کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے حقیقی اور کلوننگ سے پاک اصل اقامت دین کے داعی و پیرو کار ہیں ان کی نظریاتی استقامت، مداومت اور ہمیشگی سب کے لیے بہت ساری دعائیں اور دعاؤں کے ساتھ یہ گزارش بھی کہ دجالی میڈیائی دور میں کوئی بھی فیصلہ، کوئی بھی پوسٹ، کوئی بھی تحریر دو نفل نماز حاجت پڑھے بغیر شیئر نہ کیا کیجیے یہ میں نے بھی ابھی آپ سے کہتے ہوئے سیکھا ہے کہ جب وہ ’’قلم‘‘ کہ جسے چلاتے ہوئے ربُّ العالمین سے مشورے کیے جائیں وہ لکھتا ہے تو جان لیں کہ اس کی حرمت قرآن کریم میں موجود ہے اس حرمت کی لاج رکھیے کچھ بھی تحریر کرنے، شیئر کرنے، بتانے،آگاہ کرنے سے پہلے دو رکعت نفل نمازِ حاجت ادا کر لیں گے تو یقینا اس دجالی فتنے سے بچ سکیں گے یہ بھی مشکل لگے تو ہر ایک شیئر سے پہلے دل ہی دل میں اس ربّ العالمین سے ایسے ہی پوچھ لیا کیجیے ’’یا ربی اس میں حق اور خیر ہے تو شیئر کروا دیجیے‘‘۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کے ایمان ویقین کی حالت میں بہتری عطاء فرمائے آمین یارب العالمین۔