کراچی کے میئر کے انتخاب میں جمہوریت کا منہ کالا یوں کیا گیا کہ الم نشرح اکثریت کو حکمران سندھ نے ہرا دیا، فسطائیت جیت گئی۔ جیتنے والوں کے چہرے بھی اس فسطائیت کی کامیابی پر خوشی سے سرشار نہیں اور زندہ ضمیر کے جیالے بھی شرمندہ شرمندہ ہیں۔ پی پی پی نے جیت کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کے وضع کردہ اغوا کا ہتھکنڈا استعمال کیا مگر وہ بھول گئے کہ مولانا جان محمد عباسی کے اغوا نے پی پی پی کے بھٹو خاندان کے زوال کی اینٹ رکھ دی اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ظالم لوگ ہی خسارہ پانے کے لیے ہیں کا قرآن کا فرمان پورا ہوا۔ اب کراچی کی میئر شپ لاڈلے بلاول کی تمنا تھی ’’جو کھیلن کو مانگے چاند‘‘ اُسی روایت کے ذریعے پوری کی گئی جو بھٹو کے دور میں پڑی تھی، اب جب راستہ وہی اپنایا گیا تو انجام بھی وہی ہوگا۔ کراچی سونے کی کان ہے اور معاشی حب ہے سو پی پی پی کو اس پر ناگ بن کر بیٹھنا ہی تھا مگر بات یہ بھی ہے کہ یہ شہر قائد عالمی سیاست کا مرکز اور محور بھی ہے۔ چین نے سی پیک منصوبے کی بنیادی شرط کراچی کے امن کی رکھی جو راحیل شریف چیف آف آرمی اسٹاف نے نہ صرف قبول کی بلکہ ثابت بھی کی۔
کراچی کے مستقبل کے حوالے سے سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید جو پی پی پی ہی کے تھے نے ایک انٹرویو میں کہا تھا جو 1991ء میں شائع ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ کراچی کے بارے میں اہل یہود اور اہل مغرب کا یہ فیصلہ ہے کہ اس شہر کو تباہ کردینا ضروری ہے اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان کی تباہی ممکن نہیں ہوگی۔ اس شہر کو تباہ کرنے میں ہم اور غیر دونوں رات دن مصروف ہیں۔ آپ نے مزید کہا کہ کراچی پورے تسلسل کے ساتھ تباہ کیا جارہا ہے اس کی اکانومی پاش پاش ہورہی ہے اور کوئی زبان صادق سے کہنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ یہودی سازش ہے۔ شہر کراچی کو تباہ کرنے میں معاون ہم خود ہوئے ہیں اور یہودی کی منشا کو پورا کررہے ہیں۔ ان کا نام زبان پر لانے والا اس ملک میں نہ کوئی مولوی ہے نہ کوئی سیاست دان ہے، نہ کوئی صاحب قلم ہے اور وہ دن دور نہیں کہ جب یہ شہر تاراج کردیا جائے گا اور معاشیات پاکستان کالعدم ہوجائے گی۔ حکیم محمد سعید نے ربع صدی سے بھی زائد عرصہ قبل جب اس دکھ کا اظہار کیا تو جماعت اسلامی خم ٹھونک کر میدان میں سرگرم ہوئی۔ حافظ نعیم الرحمن نے مزاحمت کا بیڑہ اٹھایا، لوگوں کے لہو کو گرمایا اور شہر کراچی کی مزید تباہی اور بربادی کو روکنے کے لیے بلدیاتی انتخاب میں اُتری عوام کی تائید پائی۔ تمام ہتھکنڈے عوامی قوت کے سامنے مکڑی کا جالا ثابت ہوئے اور مومنانہ بصیرت سے پی ٹی آئی سے اتحاد کیا اور ارکان کی اکثریت کا سامان کیا مگر پھر کیا ہوا، وہی جو قوت کے نشے میں حکمران سازشوں سے کرتے ہیں۔ منتخب ارکان اغوا ہوئے، سندھ میں اغوا کی وارداتوں کا تناظر بھی کچھ یوں ہی ہے، ذرا کوئی گہرائی، گیرائی سے جائزہ لے اور یوں اقلیت نے اکثریت کو شکست دے دی۔
اللہ شر میں سے خیر نکالتا ہے، یقینا اس میں سے خیر برآمد ہوگا اور اللہ کی چال ہی غالب ہونے کے لیے ہے اور یہ کھیل زرداری خاندان کی سیاست کے خاتمے کا نکتہ آغاز بھی ثابت ہوسکتا ہے، جس طرح بھٹو خاندان کی سیاست کا زوال ہوا تھا، بہت سخت ہیں فقط حق کی تعزیریں: فرمان ہے جو کوئی بُری چال چلتا ہے اس کا وبال اُسی پر پڑتا ہے، یہ قول صادق ہے اور اس کو پورا ہونا ہے۔