پاکستان کے سیاسی ماحول میں ایک بہت مختصر سے جملے کی گونج بہت ہی عام ہے۔ ہر مخالف یا جس سے کسی گروہ کے سیاسی مفادات کو بہت زیادہ ضرب پہنچنے کے امکانات ہوتے ہیں، اگر اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی ریاستی زیادتیاں یا ناانصافیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور ان کے اکابرین، کارکنان یا سیاسی مددگاروں کو اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے، جیلیں کاٹنی پڑ جاتی ہیں اور بنا کوئی مقدمہ بنائے، ان کی گرفتاریاں ہو رہی ہوتی ہیں، تو مخالفین جیسے بہت سکھ کا سانس لے رہے ہوتے ہیں اور جب کوئی صدائے احتجاج ان ذیادتیوں کے خلاف کہیں سے بلند ہو رہی ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ’’کچھ تو کیا ہوگا‘‘۔
بات غلط بھی نہیں، برِصغیر میں 1857 کی جنگ ِ آزادی سے پہلے اور پھر اس جنگ ِ آزادی کے بعد تقریباً 90 برس تک مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا رہا اس کا سبب بھی ’’کچھ تو کیا ہوگا‘‘ نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ کہہ دیا جاتا ہے۔ مزید تڑکا کچھ اس طرح لگایا جاتا ہے کہ کوئی بھی گروہ کسی دوسرے گروہ پر بلاوجہ تو سفاکیت کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ تحریکیں حق پر چلنے والوں کی ہوں یا باطل پر، وہ سب ’’کچھ تو کیا ہوگا‘‘ ہی سے شروع ہوکر کامیابیوں یا ناکامیوں پر اختتام پزیر ہوتی ہیں۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صاف صاف فرمادیا ہے کہ ’’انسان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے سوائے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کو کوئی شمار ہی نہیں کر سکتا۔ ان مخلوقات میں کچھ کی غذائی ضرورت انسان کی غذا کا صرف ایک ذرہ اُس کی پوری زندگی کے لیے کافی ہے اور کچھ اتنے بڑے اجسام کے مالک ہیں کہ ایک انسان کی کئی برسوں کی غذا ان کے ایک لقمے سے بھی کم ہے۔ ربّ العالمین نے نہ صرف ان سب کی غذاؤں کا مکمل انتظام کیا ہوا ہے بلکہ وہ سب بنا محنت کسی فیکٹری، مل، یا کارخانے میں کام کیے، اپنے اپنے حصے کی غذاؤں کی ضرورتوں کو پورا بھی کر لیتے ہیں۔ پوری کائنات میں صرف ایک انسان ہی ایسی مخلوق جو کچھ کرے بنا اپنی ایک وقت کی روٹی بھی نہیں حاصل کر سکتا، حتیٰ کہ اگر ساری اشیائے خورو نوش اس کے کھانے کی میز پر بھی موجود ہوں تب بھی اسے ہاتھ بڑھا کر، لقمے کی شکل دے کر، منہ کے اندر ڈال کر، چبا کر حلق سے نیچے معدے تک پہنچانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ اسی طرح تحریکیں کبھی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور کبھی راستے میں ہی دم توڑ دیتی ہیں۔ کامیابی حق سمیٹے یا باطل، اسے بہر کیف کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔
پاکستان میں بھی اقتدار کی کشمکش میں بہت خون خرابہ ہوتا رہا ہے۔ میرے نزدیک اب تک اقتدار حاصل کرنے کی جتنی بھی جدو جہدیں نظر آئیں، وہ سب کی سب بری طرح ناکامی کا شکار ہوتی دیکھی گئی ہیں کیونکہ آج تک جو بھی تحریک ابھری ہے وہ عسکری قوتوں کے تعاون کے بغیر نہیں ابھری۔ انحصار کرنے والے کبھی اصل حکمران بن ہی نہیں سکتے اس لیے کہ جن کی پشت پناہی ان کو حاصل ہوتی ہے وہ مفادات بدل جانے کے بعد اپنی آنکھیں اور لہجہ بدلنے میں کبھی دیر نہیں لگایا کرتے۔ میرے بہت سارے احباب ظلم و ناانصافیوں کی نشان دہی پر اکثر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’کچھ تو کیا ہوگا‘‘۔ تو غلط بھی نہیں کہتے اس لیے کہ کوئی مقصد بھی حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ 1971 میں پاکستان بچانے کے لیے جماعت ِ اسلامی نے کچھ نہیں، بلکہ بہت کچھ کیا تھا جس کی سزا 50 برس کے بعد اُس دور کے رہنماؤں کو مل رہی ہے۔ اخوان المسلمین ہوں، افغان طالبان ہوں، ٹی ٹی پی ہو یا اسی قسم کی چلنے والی تحریکیں، انہوں نے ’’کچھ تو کیا ہوگا‘‘ جس کی وجہ سے آج تک وہ سب کڑی آزمائشوں سے گزر رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی کئی سیاسی و مذہبی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن، اے این پی، لشکر ِ جھنگوی، پی پی پی، ایم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی بھی شامل ہے، جو وقفے وقفے سے زیر عتاب اس لیے رہی ہیں کہ انہوں نے بھی ’’کچھ تو کیا ہی ہوگا‘‘۔
بات بہت ہی سیدھی سی ہے اور وہ یہ کہ کوئی بھی منزل اس وقت تک نہیں مل سکتی اور نہ ہی کوئی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے جب تک کچھ تو کیا ہوگا والا طنز کا تیر سینے کے اُس پار نہ اُتارنا پڑے۔ ہر وہ فرد انفرادی طور پر یا پارٹی کے ناتے اجتماعی لحاظ سے اپنے کسی مخالف کے خلاف کسی بھی قسم کی ظلم زیادتی پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اس پر طنز کے نشتر چلانے سے پہلے اگر یہ سوچ لے کہ
’’وہ‘‘ آج زد پہ اگر ہیں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
تو پاکستان کی سیاسی تلخیوں میں نہ صرف کمی واقع ہو سکتی ہے بلکہ ظالموں کے دلوں میں بھی ظلم کرنے سے پہلے ڈر اور خوف کی لہر ضرور دوڑ جائے گی۔ جب تک ایک دوسرے کے زخموں پر نمک پاشیاں کی جاتی رہیں گی، ظالم نہایت سکون و سفاکی کے ساتھ مشق ِ ستم جاری رکھتے رہیں گے لہٰذا ’’کچھ تو کیا ہوگا‘‘ کے تیر و تبر چلانے کے بجائے ظلم کی حوصلہ شکنی اور مظلوم کی حمایت کی روایت کو پروان چڑھایا جائے اور جس جگہ، جس کے خلاف اور جہاں بھی ظلم ہوتا نظر آئے، ہم آواز ہوکر ظالم کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی جائے بلکہ اس کے ہاتھ بھی لازماً روکے جائیں ورنہ کبھی کسی پر اور کبھی کسی پر ظلم توڑا جاتا رہے گا اور ہم سب ہر مخالف پر ڈھائے جانے والے ظلم پر قہقہے لگاتے رہیں گے۔