امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اسٹیبلشمنٹ، عدالت عظمیٰ یعنی عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے یہ بات کراچی میں میئر کے انتخاب میں عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالنے پر ردعمل میں کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عدالتوں میں بھی جائیں گے اور 23 جون کو الیکشن کمیشن اسلام آباد کے دفتر کے سامنے مظاہرہ بھی کریں گے۔ سراج الحق صاحب کا مشورہ صائب ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ جن اداروں اور لوگوں کے منہ کو سیاست کا چسکا لگ گیا ہے وہ اسے کیونکر چھوڑیں گے۔ حکومتیں غلط کام کرتی ہیں تو لوگ عدالت میں جاتے ہیں، الیکشن کمیشن سے شکوہ ہو تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ جس میں فوج بیوروکریسی اور طاقتور ادارے شامل ہیں ان سے شکایت ہو تو بھی لوگ عدالت کی طرف جاتے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران عدالتیں بھی اس تیزی سے سیاسی گروپ بندیوں کا شکار ہوئی ہیں کہ اب جج بھی پارٹیوں کے حامی اور مخالف کے طور پر جانے پہچانے جارہے ہیں۔ پھر عوام کہاں جائیں۔ نواز شریف دور میں مقرر ہونے والے ججوں کو نواز شریف کا جج اور عمران خان کے دور میں مقرر ہونے والے ججوں کو عمران خان کا جج قرار دیا جارہا ہے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے ثبوت بھی اس کا دیا ہے۔ سیاسی لیڈروں کو تو اسٹیبلشمنٹ کا کھونٹا ملا ہوا ہے، ایک پارٹی سے نکلتے ہیں ان کے لیے دوسری تیار ہوتی ہے، اس کی ناکامی لیڈر کے سر تھوپ دی جاتی ہے اور یہی لوگ ہانک کر دوسری پارٹی میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ یہ کہانی برسہا برس سے چل رہی ہے۔ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ طاقتور ہے لیکن اب بھی وہ آئین سے زیادہ طاقتور نہیں، اگر سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر اداروں کا استعمال بند کردیں اور اداروں کے لیے استعمال ہونا بند کردیں بلکہ پہلی مرتبہ تو انکار کرنا ہوگا اس کے بعد ہی کوئی بھلائی کا راستہ نظر آئے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کے یعنی فوج کے سیاسی امور میں دخیل ہونے کے نتیجے میں یہ گھن چکر شروع ہوگیا کہ کچھ سیاستدانوں نے کبھی عدلیہ کی مدد سے ریلیف حاصل کیا تو اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ ہی کو قابو میں کرلیا۔ پھر تو ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کیا الیکشن کمیشن کیا ایف آئی اے اور نیب اور کیا سپریم کورٹ، خصوصاً فوج تو جنرل باجوہ اور عمران خان کے دور سے اس قدر متنازعہ ہوگئی ہے کہ ہر ایک کی زبان پر فوج کا رول ہے، اس کام میں عمران خان کا بھی بہت بڑا حصہ ہے انہوں نے اتنی دفعہ باجوہ اور میں باجوہ اور میں کہا ان کی تعریفیں کیں اور فوج نے عمران خان کی اتنی تعریفیں کیں کہ لوگ دونوں کو ایک سمجھنے لگے اور حکومت ختم ہوئی تو عمران خان فوج ہی کے خلاف ہوگئے پھر تو یہی ہوگا۔ ایسے میں یہ ادارے سیاست سے دور کیسے ہوسکتے ہیں۔ ان سب کو سیاست سے دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے مقتدر سیاستدان جو حکومتوں میں آتے رہتے ہیں وہ سب اور دوسرے سیاستدانوں کو بھی جمع کرکے خود سیاست سے قریب ہوجائیں۔ جوڑ توڑ اور دبائو اور پیسے کو سیاست میں نہ لائیں اصولوں اور آئین کی پاسداری کریں خود کریں گے تو دوسروں سے کراسکیں گے۔