ہر انسان کا خمیر خوبیوں اور خامیوں یا بالفاظ دیگر بعض کمزوریوں کے اجزاء ترکیبی کا مرکب ہے جو اْس کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ کچھ انسانوں میں خوبیاں خامیوں پر غالب آجاتی ہیں جس کی بناء پر وہ معاشرے کے لیے بہتر اور مفید ثابت ہوتے ہیں جبکہ بعض انسانوں میں صورتحال اس کی برعکس ہوتی اوراس بنیاد پر وہ نا صرف اپنے کْنبے، خاندان بلکہ معاشرے کے لیے بھی باعث زحمت و آزار ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے افراد معاشرے میں شاذو نادر ہی ہوتے ہیں جن میں خامیاں تلاش کرنے کے باوجود بھی نظر نا آئیں بلکہ اْن کی شخصیت کا ہر پہلو اعلیٰ خوبیوں کا آئینہ دار ہو اور ہر زاویے سے اْن کی خوبیاں اور اعلیٰ صلاحیتیں منکشف ہوتی ہوں۔ پروفیسر افسر حسین رضوی ایک ایسی ہی شخصیت کے حامل فرد تھے جن کی ذات میں قدرت نے خوبیاں ہی خوبیاں سمودی تھیں۔ افسر رضوی کا سفر حیات نو دہائیوں پر مشتمل تھا۔ 17 جولائی1933 کو انہوں نے لکھنو (یوپی) کے قریب لکھیم پور کے ایک متوسط اور عزت دار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ بارہ بنکی میں ابتدائی تعلیمی مراحل طے کیے، بعدازاں 1948ء میں اینگلو عربک ہائی اسکول، موری گیٹ، دہلی سے میٹرک کیا۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت کے شمالی علاقوں میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے۔ لہٰذا نوجوان افسر رضوی اپنے وطن لکھنو واپس آگئے اور کرسچن کالج میں داخلہ لیا، وہاں اْنہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک تقریر کے جواب میں جو انہوں نے دہلی کے لال قلعے میں پاکستان کے قیام کی مخالفت میں کی تھی۔ پاکستان کی حمایت میں ایک پر جوش جذباتی تقریر کی۔ افسر رضوی کی تقریر کے دوران تقریر کی حمایت اور مخالفت میں شدید نعرے بازی شروع ہوگئی اور کالج کی فضا مکدر ہونے لگی تو پولیس نے طلبہ کو مْنتشرکرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ اس موقع پر دیگر ان گنت طلبہ کے ساتھ افسر رضوی کو بھی حراست میں لے لیا گیا اور ایک ماہ اْنہیں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ جیل سے رہائی کے بعد اْنہوں نے علی گڑھ کا رْخ کیا اور علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے 1950ء میں اْنہوں نے انٹرمیڈیٹ امتیازی نمبروں سے کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فراغت کے فوراً بعد وہ مستقلاً پاکستان آگئے اور زندہ دلوںکا شہر لاہور اْن کا مسکن قرار پایا۔ 1950ء میں ہی ان کا تقرر محکمہ موسمیات میں ہو گیا۔ اسی اثنا میں مزید تعلیم کے حصول کی خاطر انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور 1952ء میں بی ایس سی کی سند حاصل کی اس دوران ملازمت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تعلیمی سلسلے کو مزید فروغ دینے کے لیے انہوں نے ایف سی کالج لاہور سے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کی غرض سے داخلہ لیا۔ شومئی قسمت کہ سال دوم کا امتحان دینے سے قبل کالج کی انتظامیہ کے علم میں یہ بات آئی کہ رضوی صاحب کل وقتی سرکاری ملازم ہیں چونکہ یہ بات کالج کے قواعدو ضوابط کے خلاف تھی لہٰذا اُن سے کہا گیا کہ وہ ملازمت کو خیر باد کہیں بصورت دیگر وہ ایف سی کالج میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نا رکھ سکیں گے۔ اس صورتحال میں انہیں مجبوراً کالج چھوڑنا پڑا کیونکہ معاشی معاملات کو رواں دواں رکھنے کے لیے ملازمت ناگزیر تھی۔ بعد ازاں اْنہوں نے اورنیٹل کالج کے شعبہ اردو میں داخلہ لیا اور 1962ء میں اردو ادب میں ایم اے کیا۔
ایم اے کرنے کے بعد رضوی صاحب نے کراچی کا رْخ کیا اور مختلف کالجوں اور جامعات میں ملازمت کے لیے درخواستیں دینا شروع کیں۔ اسی اثناء میں اْنہیں کیڈٹ کالج پٹارو کے کرنل کو مبز (col. coombes) کی طرف سے انٹرویو کے لیے ٹیلی گرام موصول ہوا، اور کامیاب انٹرویو کے نتیجے میں کیڈٹ کالج پٹارو میں اْردو کے استاد کے طور پر اس شرط پر اْن کا پروانۂ تقرر جاری کیا گیا کہ محکمہ موسمیات کی ملازمت سے اْنہیں فوری طور پر مستعفی ہونا پڑے گا۔ کیڈٹ کالج پٹارو میں اپنے چار سالہ دور میں رضوی صاحب نے طلبہ میں تقریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے ڈبیٹنگ کلب کی بنیاد رکھی اور 1964ء میں اْن کی رہنمائی اور نگرانی میں پہلا کل پاکستان تقریری مقابلہ اس کالج میں منعقد ہوا جس میں متعدد کالجوں کے طلبہ نے بھر پور شرکت کی، یہ ہر لحاظ سے ایک کامیاب تقریب تھی۔ اس تقریری مقابلے نے ناصرف کالج کا نام روشن کیا بلکہ طلبہ میں رضوی صاحب ایک نہایت پسندیدہ اْستاد کے طور پرسامنے آئے۔ رضوی صاحب نے 1964ء تا 1966ء کالج کے اْردو اور انگریزی ڈبیٹنگ کلب کے پہلے پیٹرن کے طور پر طلبہ کی مخفی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے ضمن میں گرانقدر خدمات انجام دیں، جو آج بھی اْس دور کے طلبہ کے اذہان میں تازہ ہیں۔
جہد مسلسل رضوی صاحب کی فطرت ثانیہ تھی لہٰذا کیڈٹ کالج میں ملازمت کے دوران ہی وہ پبلک سروس کمیشن کے امتحان بیٹھے۔ امتحان میں کامیابی کے بعد اْن کی خدمات محکمہ تعلیم، حکومت مغربی پاکستان کے سْپردکردی گئیں۔ نئی ملازمت کے ابتدائی تین ماہ اْنہوں نے ہری پور کے کالج میں گزارے پھر اْن کا تبادلہ گورنمنٹ کالج آف سائنس، وحدت روڈ، لاہور میں بحیثیت لکچرر اردو کر دیا گیا جہاں 1976ء تک وہ تدریسی عمل کا حصہ رہے۔ اْنہوں نے پی ٹی وی پر متعدد پروگرام کیے جن میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور معلومات سے بھر پور پروگرام ’’ہم اور سائنس‘‘ تھا جو کئی سال تک پی ٹی وی لاہور مرکز سے پیش کیا گیا۔ 1976ء ہی میں ڈیپو ٹیشن پر اْن کی تعلیمی خدمات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو تفویض کردی گئیں، بعد ازاں 1979ء میں اْنہیں واپس گورنمنٹ کالج آف سائنس، لاہور بھیج دیا گیا جہاں سے 1993ء میں وہ بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر سبکدوش ہوئے۔
رضوی صاحب اْردو کے مستند اْستاد ہونے کے علاوہ ایک اعلیٰ تخیلات کے حامل شاعر بھی تھے۔ گو کہ اْن کے تخلیق کردہ اشعار کی تعداد زیادہ نہیں لیکن تخیل منفر اسلوب پرْکشش اور فکر کے نئے دریچے وا کرنے والا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے سالانہ مْجلّے ’’دبستان‘‘ میں 68 صفحات پر مشتمل رضوی صاحب کی تعلیمی، ادبی اور ذاتی زندگی کے مختلف گوشوں پر مبنی مختلف اساتذہ، دانشور وں، طلبہ اور دیگر صاحبان علم وفن کے تاثرات، تبصرے تجزیے اور مضامین شائع ہوئے ’’دبستان‘‘ کے اس حصے کو ’’گوشہ افسر‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ افسر رضوی 20 مارچ 1976ء کو لاہور میں میری خالہ زاد بہن شاہدہ پروین سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اْن کی شریک حیات بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ رہی ہیں۔ افسررضوی اور شاہدہ کو اللہ نے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی نعمت سے سرفراز کیا۔ والدین کی طرح اْن کی اولاد بھی تعلیم کی دولت سے مالا مال ہے۔ اْن کی بڑی بیٹی عالیہ انگریزی ادب میں ایم اے ہے، دو جڑواں بیٹیاں حنا اور ہْما نے طبیعات اور کیمیا میں ماسٹرز کیا ہے جبکہ ان کا بیٹا مصطفی حیدر طب کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے سلسلے میں آجکل برطانیہ میں مقیم ہے۔ افسر رضوی 90 سال پر محیط ایک بھر پور، کامیاب اور خوش گوار زندگی گزارنے کے بعد 16 اپریل 2023ء کو اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ وہ طلبہ کے لیے ایک پسندیدہ اور مثالی اْستاد، شریک حیات کے لیے محبوب اور باعث فخر شوہر، اولاد کے لیے ایک مشفق اور مانند شجر سایہ دار باپ، اور دوستوں اور عزیزوں کے لیے ایک معتبر حوالہ تھے۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور اُن کے اہل خانہ اور دیگر متعلقین کو صبر جمیل کرامت فرمائے۔ (آمین)