کراچی میں میئر کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ریاستی طاقت کے ذریعے جس کی طرح فسطائیت اور جمہوریت کا قتل عام کیا اس نے پیپلز پارٹی کے چہرے کی قلعی پوری دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے۔ ریاستی مشینری کے استعمال، پی ٹی آئی کے چیئرمینوں کا اغوا اور ان کی خریدو فروخت اور 193 ووٹوں کو 160 میں تبدیل کردینا اور 173 ووٹوں سے مرتضیٰ وہاب کو کامیاب کرانا پیپلز پارٹی کا ہی کارنامہ ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کے میئر کے انتخاب میں ریاستی اداروں اور الیکشن کمیشن کی مل بھگت سے کامیابی حاصل کرکے کراچی کے عوام کے مینڈیٹ پر شب خون مارا ہے بلکہ اس نے 1971 کی تاریخ دہرائی ہے جب مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی پارٹی نے 167نشستیں حاصل کی تھی اور یہاں مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے صرف 86نشستیں حاصل کی تھی لیکن بھٹو نے اپنی ہٹ دھرمی کے ذریعے شیخ مجیب الرحمن کی کامیابی کو قبول نہیں کیا اور ملک گنوا دیا۔ سیدمودودی ؒ نے اس موقع پر تاریخی تبصرہ کیا تھا کہ ’’بھٹو نے خود کو بڑا کرنے کے لیے ملک کو چھوٹا کر دیا‘‘ یہی صورتحال اس وقت کراچی کی ہے کہ نو لاکھ ووٹ حاصل کرنے والے حافظ نعیم الرحمن کو سازشوں کے ذریعے ہرایا گیا اور تین لاکھ ووٹ حاصل کرنے والا مرتضیٰ وہاب شہر کا جعلی میئر بن گیا جو جمہوریت کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ 15اپریل کو جب بحیرہ عرب میں بننے والے سمندری طوفان بپر جوائے سے تو کراچی بچ گیا لیکن کراچی کے میئرکے انتخاب کی یہ بربادی اس کا مقدر ٹھیری۔
شاباش ہے حافظ نعیم الرحمن کو جنہوں نے تن تنہا اس وڈیرہ شاہی نظام کو چلینج کیا اور اسے جرأت کے ساتھ للکارنے کے ساتھ بے نقاب بھی کیا۔ جماعت اسلامی کی جانب سے پورے ملک میں جمعہ کے روز یوم سیاہ منایا گیا اور کراچی سے لیکر خیبر تک پیپلز پارٹی کی فسطائیت اور جمہوریت کے قتل عام کے خلاف بھرپور طریقے سے احتجاج کیا گیا۔ دھاندلی کے ذریعے حاصل کی جانے والی کراچی کی میئر شپ پیپلز پارٹی کے لیے چھچھوندر بن جائے گی جو نگلی جائے گی اور نہ اگلی جائے گی۔ آصف زرداری بڑے ارمانوں کے ساتھ اپنے بیٹے بلاول کو پاکستان کا وزیراعظم بنانے کے لیے جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں لیکن کراچی میں جس غیر جمہوری اور دھاندلی کے ذریعے زبردستی میئر شپ حاصل کی گئی ہے اس نے پیپلز پارٹی کی ساکھ کو پوری دنیا میں ملیا میٹ کردیا ہے۔ اس سے قبل ایوب خان کے دور حکومت میں جب بھٹو صاحب ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ بھٹو ہی نے اپنی چالوں کے ذریعے مادر ملت کو شکست دلوا کر ایوب خان کو کامیابی دلوائی تھی۔ اس طرح کے غیر سیاسی رویوں نے غیر جمہوری قوتوں کو تقویت پہنچائی ہے۔ پیپلز پارٹی گزشتہ پندرہ برسوں سے مسلسل سندھ کی بلا شرکت غیرے حکمران پارٹی ہے لیکن سندھ کے غریب ہاری وڈیروں اور جاگیر داروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور اب یہ وڈیرہ ازم کراچی میں بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
جماعت اسلامی نے ان بلدیاتی انتخابات کے لیے بڑی محنت کی تھی حافظ نعیم الرحمن چیتے اور شیر کی طرح اپنی مہم دلیری کے ساتھ چلا رہے تھے اور کراچی کے بنیادی حقوق کے لیے انہوں نے بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی اور بہترین مہم چلائی۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں پورا شہر ان کی پشت پر کھڑا ہوگیا تھا اور کراچی کی عوام نے انہیں 6لاکھ سے زائد ووٹ دیے جبکہ پیپلز پارٹی 3لاکھ ووٹ ہی حاصل کر پائی لیکن پیپلز پارٹی کی انجینئرنگ اور ان کی سائنس سے 3لاکھ ووٹ والا میئر منتخب ہوگیا۔ پیپلز پارٹی نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیں گے اور تو اور جماعت اسلامی کے کئی چیئرمین بھی جماعت اسلامی سے نالاں ہیں وہ بھی حافظ نعیم کو ووٹ نہیں دیں گے۔ تحریک انصاف کے 31چیئرمین تو الیکشن والے دن اغواء کر لیے گئے اور لاپتا ہوگئے لیکن جماعت اسلامی کے تمام کے تمام چیئرمین اپنا ووٹ کاسٹ کرنے آرٹس کونسل پہنچ گئے جس سے یہ بات بھی عملی طور پر ثابت ہوگئی کہ الحمدللہ جماعت اسلامی کو کوئی خرید نہیں سکتا۔
آج پوری دنیا میں پیپلز پارٹی کو ایک میئر کی خاطر جس ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ ایک سیاسی جماعت کے لیے انتہائی شرمناک ہے۔ کراچی کی عوام نے میئر کا جعلی اور غیر جمہوری، غیرآئینی انتخاب مسترد کردیا ہے اس انتخاب کو فوی طور پر کالعدم قرار دیا جائے اور از سر نو شیڈول جاری کیا جائے۔ پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے کراچی کے مینڈیٹ پر شب خون مارا ہے اور کراچی کے عوام کسی بھی قیمت پر اسے قبول نہیں کریں گے۔ 15جون کا دن کراچی کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اکثریت کو اقلیت
میں تبدیل کرنا جمہوریت کی نفی ہے۔ پیپلز پارٹی بظاہر تو میئر کا انتخاب جیت گئی ہے لیکن جمہوریت ہار گئی ہے۔ الیکشن کمیشن سٹی کونسل کراچی کے 31ارکان کو غائب کرنے اور ووٹ کا حق سے محروم رکھنے کی تحقیقات کرے۔ پیسوں کے استعمال اور ارکان کی خرید وفروخت نے پورے جمہوری نظام کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے اور اس سارے عمل کو سیاست جمہوریت یا زیرک سیاست نہیں بلکہ بے غیرتی اور بے شرمی کہتے ہیں اور یہ ایک گھناونا کھیل ہے جس کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیے اور عالمی سطح پر اس پر احتجاج کیا جائے تاکہ لوگوں کو باآسانی سمجھ میں آسکے کہ مشرقی پاکستان میں کھیلے جانے والا کھیل آج بھی اسی آب وتاب کے ساتھ جاری ہے۔ اس ملک کو آزاد ہوئے 75سال کا عرصہ ہوا چاہتا ہے لیکن آج بھی ہمارے سروں پر وڈیرے جاگیردار اور سرمایہ دار، خان، نواب مسلط ہیں اور ہم سانس بھی ان کی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتے۔ سندھ کا غریب ہاری مزدور پانی بجلی تعلیم صحت روٹی کپڑا مکان سے محروم ہے اور ہم ڈھول کی تاپ پر ان وڈیروں جاگیرداروں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور یہ ظالم سفاک اپنی لوٹ مار کرپشن سے ملک کو تباہ کیے جارہے ہیں۔ کوئی عدلیہ، قانون، ادارے انہیں روکنے ٹوکنے والے نہیں۔ کراچی کے عوام کسی بھی قیمت پر اپنے مینڈیٹ پر ڈاکا نہیں ڈالنے دیں گے۔ حافظ نعیم الرحمن شیخ مجیب الرحمن بھی نہیں۔ وہ ان کے حلق سے اپنا حق نکانے کا گر جانتے ہیں۔ قومی اداروں نے اگر اس موقع پر اپنا فریضہ سرانجام نہیں دیا اور جعلی انتخابات کو کالعدم قرار نہیں دیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور کراچی کے عوام کا ملکی اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا۔