انتقامی کارروائی ملک کو غیر مستحکم کرے گی

620

12مئی 2007 کو کراچی ایک فوجی آمر کی حکومت میں صبح کی روشنی سے رات کی تاریکی تک سیکڑوں سیاسی کارکنوں بے گناہ مرد خواتین کو موت کی آغوش دے چکا تھا اور پورا ملک سوگ میں ڈوب چکا تھا مگر افسوس کئی سال گزر جانے کے باوجود اس شہر میں خون کی ہولی کھیلنے والوں کو کوئی بھی ادارہ اور حکومت سزا نہیں دے سکی۔ ٹھیک سات سال بعد 17جون 2014 سانحہ ماڈل ٹائون لاہور رونما ہوتا ہے اب فرق صرف اتنا ہے کہ یہ سانحہ ایک منتخب حکومت کی سرپرستی میں رونما ہوتا ہے جس میں ایک مذہبی جماعت کے نہتے کارکنوں جن میں مرد خواتین معصوم بچے تھے جن پر پنجاب پولیس کی جانب سے گولیاں برسائی گئیں جس کے نتیجے میں کئی 15 سے زا ئد مرد خواتین ہلاک ہوئے، یہ وہ وقت تھا جب موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف خادم اعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیر وفاقی داخلہ رانا ثناء اللہ صوبائی وزیر داخلہ پنجاب تھے مگر افسوس کہ اس سانحے پر کاغذی کارروائی کے سوا کسی بھی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ سانحہ 12 مئی کراچی سانحہ 17 جون ماڈل ٹائون لاہور سانحہ بلدیہ ٹائون کو انجام دینے والے سب آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں اور سہولت کار ملک کے ایوانوں میں مزے کر رہے ہیں۔

آج 9 سال بعد 9 مئی کو خان صاحب کی گرفتاری نے عوام کو دھچکا پہنچایا اور سیاسی کارکنوں کی آڑ میں شر پسندوں نے افواج پاکستان کی عمارتوں قومی املاک کو جس طرح آگ لگائی توڑ پھوڑ کی وہ قابل مذمت قابل افسوس ہے ایسے شر پسندوں کے خلاف بھر پور قانونی کارروائی کی جانی چاہیے اور ساتھ ہی تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو اس سانحے سے یہ سبق بھی سیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی جماعت میں موجود شر پسندوں کے خلاف کارروائی کریں تاکہ آئندہ کسی کو بھی فوجی املاک اور قومی اثاثوں کی طرف ملی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ ہو۔

اگر تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی سمت درست نہ کی تو یقینا ایسا پھر ہوسکتا ہے آج سیاسی جماعتوں کی نالائقی کی وجہ سے فوج اور عوام کے درمیان نفرت کو جنم دیا جارہا ہے افواج پاکستان کی جانب سے جس طرح کا ردعمل آیا یقینا اس سے عوام اور فوج کے درمیان مزید نفرت جنم لے گی یقینا 9 مئی کو جس طرح فوجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا وہ قابل مذمت ہے مگر ادارے کو یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ایسا کیوں کر ہوا اور اگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوام میں نفرت کو مزید جنم دیا جاتا رہا تو خدانخواستہ ہمیں اس سے بھی زیادہ نقصام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بڑی معذرت کے ساتھ ملکی مفاد میں ابھی نندن کلبھوشن اور ریمنڈیوس جیسے ملک دشمنوں کو معاف کیا جاسکتا ہے تو پھر اس ملک کے وہ نوجوان جن کی لاشوں پر تمام سیاسی جماعتیں برسوں سے سیاست کر رہی ہیں جن کا برین واش کیا جاتا رہا ہے جن کی لاشوں پر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوا جاتا رہا ہے۔ کیا ادارہ ملکی حالات کو غیر مستحکم سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع تر قومی مفاد میں کوئی ایسا فیصلہ عمل میں لائے جس سے تلخی اور مزید نفرت جنم نہ لے اور برین واش نوجوان نسل کو درست سمت کا تعین کرنے میں مدد مل سکے ۔ یاد رہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے دور اقتدار میں سیاسی انتقامی کو ہوا دیتے ہوئے ایسے دل خراش واقعات کو جنم دیا ہے لہٰذا ایسا عمل پھر نہ دہرایا جائے اس لیے ہمیں انتقام سے ہٹ کر کوئی ٹھوس موثر اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔