’’سیدنا مالک انصاری بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ایک ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ اتنی بربادی نہیں کرتے، جتنی مال کی حرص اور منصِب کی طلب انسان کی عزت اور دین کو برباد کرتی ہے‘‘، (ترمذی) سیدنا انس بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: تین چیزیں ہلاک کردینے والی ہیں: بخیل کی اطاعت کی جائے، خواہشِ نفس کی پیروی کی جائے، کوئی شخص غرورِ نفس میں مبتلا ہو اور تین چیزیں نجات دینے والی ہیں: ظاہر وباطن میں اللہ کا خوف ہو، مالداری اور محتاجی (دونوں حالات میں) میانہ روی کو شعار بنائیں اور حالتِ رضا ہو یا حالتِ غضب، (ہرحال میں) کلمۂ حق کہے‘‘، (شعب الایمان) آپؐ نے فرمایا: ’’جب تمہارے حکمران تم میں سے بہترین لوگ ہوں اور تمہارے مال دار سخی ہوں اور تمہارے اجتماعی معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوں تو تمہارا زمین کے اوپر رہنا زمین کے نیچے چلے جانے سے بہتر ہے (یعنی زندگی تمہارے لیے باعثِ خیر ہے) اور جب تمہارے حکمران تم میں سے بدترین لوگ ہوں اور تمہارے مال دار لوگ بخیل ہوجائیں اور معاملات کی باگ ڈور عورتوں کے ہاتھ میں چلی جائے تو تمہارے لیے زمین کے اندر چلے جانا زمین کے اوپر رہنے سے بہتر ہے (یعنی دنیا میں تمہارے لیے خیر نہیں ہے)‘‘۔ (سنن ترمذی)
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’بدترین بندہ وہ ہے: جو تکبر کرے، حد سے تجاوز کرے اور خداوند بزرگ وبرتر کی ہستی کو بھول جائے، جو گھمنڈ میں مبتلا ہو، اترائے اور خداوندِ بزرگ وبرتر کو بھول جائے، جو جبر کرے، حد سے تجاوز کرے اور خداوندِ بزرگ وبرتر کو بھول جائے، جو (احکامِ خداوندی کو) بھول جائے، اپنی دینی ذمے داریوں سے غافل ہوجائے اور قبر اور اس میں گلنے سڑنے کو بھول جائے، جو سرکشی اختیار کرے، (احکامِ الٰہی سے) بغاوت کرے اور اپنے آغاز وانجام کو بھول جائے، جو دین کو دنیا کے حصول کا ذریعہ بنائے، جو شبہات میں مبتلا ہوکر دین کو نقصان پہنچائے، جو طمع پرست بن جائے، جسے نفس کی باطل خواہشات گمراہ کریں اور جو اُن امور میں رغبت رکھتا ہو جو اُس کے لیے ذلت کا باعث ہوں‘‘، (ترمذی) رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے نو باتوں کا حکم فرمایا ہے: ظاہر اور باطن میں اللہ تعالیٰ کی خَشیت دل میں رہے، غضب اور رضا میں عدل کو قائم رکھوں، رزق کی فراخی او ر تنگی میں میانہ روی کو اختیار کروں، (میرا شعار یہ ہو:) جو مجھ سے تعلق توڑے، میں اس سے تعلق جوڑوں، جو (میری ضرورت کے وقت) مجھے محروم رکھے، میں (اُس کی ضرورت کے وقت) اُسے عطا کروں، جو مجھ پر ظلم کرے، میں اس کو معاف کردوں، جب خاموش رہوں تو فکرِ آخرت میں مشغول رہوں اور بولوں تو ذکرِ الٰہی میری زبان پر جاری ہو، کسی چیز پر نظر ڈالوں تو عبرت کے لیے اور نیکی کا حکم دیتا رہوں‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو اَکھاڑے میں اپنے مقابل کو پچھاڑ دے، بلکہ درحقیقت پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے جذبات پر قابو پالے‘‘، (بخاری) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اپنے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جلدی کرو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے، وہ ایسے پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے جوخوش حالی اور تنگدستی (ہرحال میںاللہ کی راہ) میں خرچ کرتے ہیں، وہ غصے کو پی جانے والے ہیں، لوگوں (کی خطائوں) کو معاف کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘۔ (آل عمران: 133-134) میمون بن مہران کے بارے میں روایت ہے: ایک دن ان کی باندی گرم سالن کا ایک پیالہ لے کر آئی، اس وقت اُن کے پاس مہمان بیٹھے ہوئے تھے، وہ باندی لڑکھڑائی اور وہ شوربہ اُن پر گر گیا، میمون نے اُسے سزا دینے کا ارادہ کیا تو باندی نے کہا: میرے آقا! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ‘‘ (اور غصے کو پی جانے والے)، میمون نے کہا: میں نے اپنے غصے پر قابو پالیا اُس نے کہا: اللہ فرماتا ہے: ’’وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس‘‘(اور لوگوں کی خطائوں کو معاف کرنے والے)، میمون نے کہا: میں نے تمہیں معاف کردیا، اُس نے کہا: اللہ فرماتا ہے: ’’وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ (اور اللہ احسان شعار بندوں کو پسند فرماتا ہے)، میمون نے کہا: جامیں نے تجھے آزاد کیا۔
نبیؐ نے فرمایا: ’’متکبرین کو قیامت کے دن انسانی صورت میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ان پر ہر طرف سے ذلّت چھائی ہوگی، انہیں جہنم کے ’’بُوْلَس‘‘ نامی قید خانے میں لے جایا جائے گا، جہاں اُن پر ایسی آگ کے شعلے بلند ہوں گے جو آگ کو بھی جلا ڈالے (حدیث پاک میں اسے ’’نَارُ الْاَنْیَار‘‘ یعنی آگوں کی آگ سے تعبیر فرمایا گیا ہے) اور جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی، اسے ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال‘‘ کہتے ہیں، یعنی سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ‘‘۔ (سنن ترمذی)
حدیثِ قدسی ہے: ’’کبریائی (بزرگی اور برتری) میری ’’رِدا‘‘ ہے اور عظمت میری’’اِزار‘‘ (یعنی یہ دونوں میری صفات ہیں)، سو جو کوئی مجھ سے ان دونوں صفات میں سے کسی کے بارے میں جھگڑا کرے گا (یعنی تکبر وعظمت کو اپنا شعار بنائے گا) تو میں اُسے جہنم میں ڈال دوں گا‘‘، (سنن ابن ماجہ) علامہ اقبال نے کہا ہے:
سروری زیبا فقط، اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وُہی، باقی بتانِ آزری
مفہومی ترجمہ: ’’کبریائی اور عظمت صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کے شایانِ شان ہے، کیونکہ وہی حاکمِ حقیقی، قادرِ مطلق اور مالکِ حقیقی ہے، باقی ظاہری دنیا میں جو بھی ہمیں با اختیار اور برسرِ اقتدار نظر آتے ہیں، وہ سب آزَر کے تراشے ہوئے بتوں کی مانند ہیں، ان کا اقتدار واختیار عارضی اور ان کا انجام فنا و زوال ہے‘‘۔ لوگ العیاذ باللہ! خدائی دعوے کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنی اصلیت کو فراموش کردیتے ہیں، یگانہ چنگیزی نے کہا تھا:
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ، مگر بنا نہ گیا
کتنے ہی فرعون، نمرود اور شدّاد گزرے ہیں، جنہوں نے باطل خدائی کے دعوے کیے، مگر ان کا انجام عبرت ناک رہا، حبیب جالب نے مَسندِ اقتدار پر متمکن پیکرِ غرور کے بارے میں کہا تھا:
تم سے پہلے وہ جو اک شخص، یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
میرتقی میر نے کہا تھا:
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ اُستخوان، شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ، بے خبر
میں بھی کبھو کُسو کا، سرِ پُر غرور تھا
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب قومی خزانے کو ذاتی دولت بنا لیا جائے، قومی امانتوں کو مالِ غنیمت سمجھ کے لوٹا جانے لگے اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر دینے سے انکار کردیا جائے، دین کا علم دنیا سنوارنے کے لیے حاصل کیا جائے، ایک شخص اپنی بیوی کا فرمانبردار اور ماں کا نافرمان ہوجائے، ایک شخص اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو دور رکھے، مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں (یعنی جھگڑے ہوں)، بدکار شخص قبیلے کا سردار بن جائے، قوم کی زمامِ اقتدار کمینے لوگوں کے ہاتھ میں آجائے اور (معاشرے میں) کسی شخص کی عزت (اس کے علم، کردار یا شرافت کی بنا پر نہیں، بلکہ) اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے، گانا گانے والیوں اور آلاتِ غِنا کا دوردورہ ہو، بدکاری عام ہوجائے اور شراب نوشی کے دور چلیں،
اس امت کے پچھلے لوگ اپنے پہلوں پر لَعن طَعن کریں، تو پھر تم اُس وقت کا انتظار کرو جب سرخ ہوائیں چلیں گی، زلزلے آئیں گے، زمین میں دھنسا ئے جائو گے، صورتیں بگاڑی جائیں گی اور پتھر برسائے جائیں گے اور (قیامت کی) نشانیوں کا ظہور اس طرح پے درپے ہوگا جیسے تسبیح کی لڑی کے ٹوٹ جانے سے اس کے دانے ایک ایک کر کے گرتے چلے جاتے ہیں‘‘۔ (ترمذی) صورتوں کے مسخ ہونے کی ایک شکل تو یہ ہے جیسے بنی اسرائیل کو ان کی سرکشی اور نافرمانیوں کے سبب بندر اور خنزیر بنا دیا گیا تھا اور ایک صورت یہ ہے کہ اقوامِ عالَم کے درمیان بے توقیر ہوجائیں اورمسلمانوں کے لیے کوئی مقامِ افتخار باقی نہ رہے، شاعرنے کہا ہے:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ہمارے لیے مقامِ غور ہے کہ کیا آج ہمارے معاشرے میں کردار، دیانت، شرافت، امانت، علم اور تقویٰ جیسی اَقدار عزت وافتخار کا باعث ہیں یا حدیثِ پاک کی رو سے دہشت، ضرر رسانی اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت باعثِ تکریم ہے۔
’’(جبریلِ امین بشری شکل میں رسول اللہؐ کے پاس آئے، آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، آپ کے گھٹنوں سے گھٹنا ملاکر بیٹھ گئے اور ایمان، اسلام، احسان اور آثارِ قیامت کے بارے میں چند سوالات کیے، اُن میں سے ایک یہ تھا:) قیامت کب آئے گی، آپؐ نے فرمایا: اس بارے میں جتنا سائل کو معلوم ہے، اُتنا ہی مسئول (یعنی رسول اللہؐ) کو معلوم ہے (کہ اس کے اِفشا کی اجازت نہیں ہے)، جبریلِ امین نے پوچھا: اُس کی علامات کیا ہیں، آپؐ نے فرمایا: یہ کہ باندی اپنے آقا کو جنے گی اور تم دیکھو گے: ننگے پائوں، ننگے بدن (یعنی جن کو پورا لباس میسر نہ ہوگا)، بکریاں چرانے والے، بلند وبالا عمارتیں بنائیں گے‘‘۔ (ترمذی)
’’باندیوں کے آقا کو جننے‘‘ کے مطالب شارحینِ حدیث نے کئی بیان کیے ہیں، اُن میں سے ایک اور زیادہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ قربِ قیامت میں اولاد اپنی ماں کی نافرمانی کرے گی، اُس سے توہین آمیز سلوک کرے گی اور اُس پر اپنا حکم چلائے گی اور اولاد کے سامنے مائیں یوں معلوم ہوں گی، جیسے آقا کے سامنے اُس کی باندی ہو۔ بعض شارحینِ حدیث نے اس کے ایک معنی یہ بھی بیان کیے ہیں: ’’بدکاری اتنی عام ہوجائے گی کہ نسب محفوظ نہیں ہوں گے، ماں باپ اور اولاد ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوجائیں گے اور اس طرح کی صورتِ حال بھی پیش آسکتی ہے، گویا بنی آدم انسانیت کے اعلیٰ مرتبے سے گر کر حیوانیتِ محض کے درجے میں آجائیں گے، اسے قرآنِ کریم نے ’’اَسْفَلُ السَّافِلِیْن‘‘ (پست ترین درجہ) قرار دیا ہے، نیز ایک مقام پر فرمایا: ’’یہ لوگ چوپایوں کی طرح بلکہ اُن سے بھی کئی درجے زائد گمراہ ہوں گے‘‘۔ ہمیں بعض حضرات نے بتایا: اسکینڈے نیوین ممالک میں بعض ہوٹلوں میں مسافروں کے لیے یہ ہدایت درج ہوتی ہے: ’’آپ خدمات پر مامور کسی خاتون سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ وہ شادی شدہ ہے یا نہیں یا اس کا شوہر کون ہے، اسی طرح کسی سے یہ بھی نہیں پوچھیں گے کہ اس کا باپ کون ہے‘‘، کئی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جنہیں اپنے حقیقی باپ کا پتا ہی نہ ہو۔ (جاری ہے)