ایک مرتبہ وسعت اللہ خان نے کالم لکھا تھا کہ جس ویگن میں وہ سفر کررہے تھے وہ لٹ گئی ساری کارروائی پولیس، تھانہ، رپٹ کے بعد ویگن کا کنڈیکٹر اسی اطمینان سے آواز لگا رہا تھا صدر سولجر بازار، ناظم آباد وغیرہ وغیرہ !!! وسعت میاں سے رہا نہیں گیا پوچھ ہی لیا کہ بھائی ابھی پوری ویگن لٹی ہے سوائے میرے سب کے موبائل گئے نقدی گئی گھڑیاں گئیں اور تم بڑے مزے سے نارمل آوازیں لگا رہے ہو، وہ بولا نئی بات نہیں ہے چوتھی دفعہ لٹی ہے، صدر، سولجر بازار، ناظم آباد، رو ککیس (کنڈکٹر کی مخصوص پکار روکو)ہے۔ وسعت کا موبائل ان کی کسی خوبی یا ان سے خوف کی وجہ سے نہیں بچا تھا بلکہ وہ انفرا اسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے بچ گیا، لٹیروں کو دیکھ کر وسعت نے ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے کے کھانچے میں موبائل رکھ دیا بلکہ پھنسادیا تھا سو وہ بچ گیا، کھانچوں اور انفرا اسٹرکچر کی تباہی سے فائدہ بھی ہو جاتا ہے۔
تو بھائیو کراچی بھی آج پہلی دفعہ نہیں لٹا بار بار لٹا، جمہوریت کے نام پر ہی لٹا کبھی یہ جمہوریت بنیادی پر واردی گئی، کبھی غیر جماعتی جمہوریت پر کبھی جدیدیت پر۔ یعنی سٹی گورنمنٹ، کراچی میں جب جب آزادانہ الیکشن ہوئے جماعت اسلامی جیتی ایوب خان کے بی ڈی ممبر کے سارے ڈرامے میں جماعت اسلامی نے کراچی میں بڑی تعداد میں سیٹیں جیت لیں، پھر جنرل ایوب کو بنیادی جمہوریت ہی پسند نہ آئی اور سب لپیٹ دیا، ایوب خان کے جانے کے بعد گیارہ سال تک کراچی تباہ ہوتا رہا پھر جنرل ضیا نے الیکشن کرایا جماعت اسلامی ہی جیتی میئر افغانی بنے اور شہر ہرا بھرا روشن ہوگیا تو دوسری دفعہ ان سے مئیر شپ چھیننے کی کوشش کی گئی لیکن افغانی صاحب نے زوہیر اکرم ندیم اور جمشید احمد خان کے تعاون سے رات گئے معاہدہ کیا اور جنرل ضیا کے لاڈلوں کو ہرادیا، اب پھر جنرلز سائنس شروع ہوئی اور کچھ نہ بن پڑا تو بلدیہ ہی توڑ دی گئی اس وقت کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ مسلم لیگی، (پچھوں جرنیلی) تھے، جمہوریت کے نام پر شب خون بھی نہیں دن دہاڑے ڈاکا مارا گیا اور پھر ’’جنرل سائنس‘‘ نے 1987 میں ایم کیو ایم کو لا بٹھایا، اس کے پندرہ سالہ مسلسل دور نے کراچی کو جو تاریخی ترقی دی اس سے ایک دنیا واقف ہے، لاشوں میں ترقی، کچرے میں ترقی، بھتوں میں ترقی، نفرت میں ترقی، جھوٹ میں ترقی عصبیت میں ترقی اور سب سے بڑھ کر ڈھٹائی میں ترقی، بقول خالد مقبول صدیقی ہم مہاجروں کو شناخت دلوانے آئے تھے وہ دلوادی ہمارا کام ختم، پانی، کچرا، سڑکیں، لائٹیں، پارک وغیرہ یہ جماعت اسلامی کے کام ہیں، بس یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کام ختم ہوجانے کے باوجود یہ گھر کیوں نہیں جارہے، دفتروں میں تو ایسا نہیں کرتے، وہاں تو کام ختم ہونے سے قبل ہی چلے جاتے ہیں۔
پچھوں یہ بھی جرنیلی ہیں۔ ایوب، جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے اپنی اپنی جمہوریت پیش بلکہ ایجاد کی اور اس میدان میں بھی جماعت اسلامی ہی کامیاب ہوئی، مشرف نے سٹی گورنمنٹ کا نظام متعارف کرایا لیکن اس میں بھی جماعت اسلامی جیت گئی، نعمت اللہ خان ناظم بنے ایک کہانی یہ بتائی جاتی ہے کہ نعمت صاحب کو ’’کسی‘‘ نے ناظم بنایا ایسا نہیں تھا بلکہ انکا راستہ روکا گیا، کبھی تاج حیدر تو کبھی کسی تاجر کا نام لیا گیا، پھر زبردستی لینڈ مافیا کے آدمی کو نائب ناظم بنانے کی کوشش کی گئی، جماعت اسلامی نے نام مسترد کردیا اور پھر طارق خان کو نائب ناظم بنایا گیا، کارکردگی، ایمانداری اور پیشہ ورانہ مہارت نے ٹیکس بڑھائے بغیر شہر کو روشن ترقی یافتہ اور گرین سٹی بنادیا، بجٹ اربوں تک پہنچا دیا۔ یہاں پھر جنرلز سائنس۔ شروع ہوئی مردہ ایم کیو ایم میں جان ڈالی گئی، مقدمات ختم کرکے گورنر لایا گیا اور پھر کراچی کو آپریٹ کرنے کی ذمہ داری مصطفی کمال کو دی گئی اور جیسے آپریٹر وہ تھے سسٹم کو ویسے ہی آپریٹ کیا، اس دور میں چائنا کٹنگ آرٹ بن گیا بلکہ نیم سرکاری کام بن گیا، سرپرستی تو سرکار ہی کی تھی، نعمت اللہ خان کے کام کے تسلسل اور رفتار نے صرف اسلام آباد کو نہیں دبئی کو بھی پریشان کردیا تھا، کراچی خطے کا بڑا شہر بن رہا تھا۔ اس لیے ان سے نظامت چھینی گئی، یہی سارے ہتھکنڈے آزمائے گئے، اغوا، دباؤ نتائج میں تبدیلی وغیرہ جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کے مقابلے میں زیادہ سیٹیں زیادہ ووٹ لیے لیکن ڈبوں سے ان کے ووٹ نکالے گئے تب بھی مطلوبہ نتیجہ نہیں آرہا تھا تو درجنوں یوسی ناظمین کے نتائج تبدیل کردیے گئے اور شہر کو جماعت اسلامی سے محروم کر دیا گیا، پھر اس شہر میں کمال ہی کمال ہوا، لیکن کسی کو فرق نہیں پڑا، پھر 2015 میں الیکشن کرائے گئے اور مئیر چار سال تک روتا ہی رہا کہ اختیار نہیں ہے، 2019 میں الیکشن نہیں کرائے گئے ایک بار پھر جماعت اسلامی میدان میں آئی چارسال کی محنت کے بعد جنوری میں الیکشن ہوہی گئے اور پھر وہی جنرلز سائنس شروع ہوگئی اب زور زبردستی زرداری سب چلی کیونکہ حلقہ بندیاں، ان کے ہاتھ میں الیکشن کمیشن ان کی جیب میں، آر او ان کی بغل میں کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ نظام عدل بھی انہی کے ہاتھ میں ہے، لیکن پھر بھی جماعت اسلامی نے ساڑھے پانچ لاکھ ووٹ لے لیے پیپلز پارٹی تین لاکھ لے سکی البتہ اس کی تیاری پکی تھی چنانچہ سیٹیں بڑھالیں جعلی نتائج ری کاؤنٹنگ آر او کے ذریعے، الیکشن کمیشن کی سستی یا سرپرستی کے باوجود پیپلز پارٹی مطلوبہ اکثریت تک نہ پہنچ سکی، اس کے بعد پی ٹی آئی نے حمایت کردی اب ووٹ 192 اور 155 رہ گئے لیکن پھر وہی جنرلز سائنس شروع ہوئی اور 192 ہار گیا اکثریت ہارگئی 9 لاکھ ووٹ ہار گئے تین لاکھ والے جیت گئے، کام کرنے والے کرتے رہیں گے کام دکھانے والوں کو اقتدار مل گیا یہ سب ہوگیا اور کراچی کے اعصاب دیکھیں ہر کام کرنے والا اپنے کام پر نکل آئے گا اور آواز لگائے گا، صدر سولجر بازار ناظم آباد، ڈبل ڈبل روککیس!! کیونکہ کراچی کو آگے بڑھنا ہے ملک کا پہیہ چلانا ہے اس لیے یہ قابض لوگ بھی جانتے ہیں کہ اوپر نیچے سب ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن حالیہ بلدیاتی الیکشن نے یہ پیغام دیا ہے کہ یہ دیواریں گر رہی ہیں۔ ان گرتی ہوئی دیواروں کو قومی اور صوبائی انتخابات میں ایک زوردار آخری دھکا دینا ہوگا۔