عمران خان اور بشریٰ بی بی

1087

جب کوئی فرد یا سیاستدان قوم کی قیادت کے لیے اُٹھتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ قوم کو ظلم و ناانصافی سے نجات دلا کر ملک میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرے گا اور حقیقی جمہوریت کو فروغ دے گا پھر اس کی آواز پر لوگ جمع بھی ہوجاتے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں اسے پزیرائی بھی مل جاتی ہے تو اس عوامی لیڈر کی پوری زندگی ’’پبلک پراپرٹی بن جاتی ہے، اس میں کوئی پرائیویسی باقی نہیں رہتی، لوگ اس کی زندگی کو ہر پہلو سے پرکھتے اور ٹٹولتے ہیں حتیٰ کہ وہ اس کی خانگی اور ازدواجی زندگی کا پوسٹ مارٹم کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ وہ یہ سب کچھ بدنیتی سے نہیں کرتے بلکہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا لیڈر کتنے پانی میں ہے اور اس کی سیاسی زندگی میں کتنی شفافیت پائی جاتی ہے۔ عمران خان ہمارے عہد کے ایک مقبول اور ہر دلعزیز سیاسی لیڈر ہیں انہوں نے اپنا دور عروج بھی دیکھا جب ان کی سیاسی جدوجہد بار آور ثابت ہوئی اور وہ وزارت عظمیٰ کے اوجِ کمال کو پہنچے اور کم و بیش پونے چار سال تک اپنی کبریائی کا ڈنکا بجاتے رہے، انہوں نے اپنے تمام حریف سیاستدانوں کو چوروں اور ڈاکوئوں کے کھاتے میں ڈال رکھا تھا اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے وہ ان چوروں اور ڈاکوئوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہ تھے۔ آج عمران خان پر بُرا وقت آیا ہوا ہے۔ وہ اقتدار سے محروم تو ایک سال پہلے ہوگئے تھے لیکن اب ان کے خلاف بغاوت، غداری، دہشت گردی اور قتل کے سیکڑوں مقدمات قائم ہوچکے ہیں۔ ان کے مخالفین اتنے بے رحم اور سفاک ہیں کہ بلوچستان میں ان پر مقدمہ دائر کرنے والے ایک وکیل کا قتل ہوا تو اس کے قتل کی ایف آئی آر بھی عمران خان کے خلاف کاٹ دی گئی حالاں کہ مقتول کی بیوہ دُہائی دے رہی ہے کہ یہ قتل خاندانی دشمنی کا نتیجہ ہے اور اس میں اس کا دیور اور سوتیلا بیٹا ملوث ہیں۔ بیوہ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ قتل کا مقدمہ عمران خان کے خلاف کیوں درج کیا گیا ہے۔ بہرکیف عمران خان کے خلاف ظلم و نانصافی کی یہ ایک مثال ہے۔ ان کے خلاف بیش تر مقدمات اسی نوعیت کے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ وہ ساری عمر انہیں بھگتاتے رہیں تو ختم نہیں ہوں گے۔ اب خان صاحب اپنے مخالفین سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں لیکن کوئی ان کی فریاد پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔
عمران خان اس حالِ تباہ کو کیسے پہنچے؟ اس کا تجزیہ ضروری ہے، جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح یہ بات بھی غلط نہیں کہ مرد کی ناکامی کی ذمے دار بھی عورت ہی ہوتی ہے۔ خان صاحب کے معاملے میں یہ بات بڑی حد تک درست ثابت ہورہی ہے۔ ان کی موجودہ اہلیہ بشریٰ بی بی کی سیاست میں مداخلت اور دیگر معاملات چونکہ میڈیا میں زیر بحث آتے رہے ہیں اور وہ خان صاحب کی سیاسی زندگی میں بہت فعال رہی ہیں اس لیے وہ بھی خان صاحب کی طرح ’’پبلک پراپرٹی‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں اور ان کے سیاسی کردار پر بات کرنا کسی طرح بھی چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے کی تعریف میں نہیں آتا۔ بشریٰ بی بی کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ موصوفہ اپنے وظائف اور چلہ کشی کے سبب ایک ’’روحانی شخصیت‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں۔ جنات ان کے قبضے میں ہیں۔ انہیں اس بات کا علم ہوگیا تھا کہ عمران خان مستقبل قریب میں وزیراعظم بننے والے ہیں۔ خان صاحب سے ان کے تعلقات بہت پہلے سے قائم تھے اور وہ اپنے شوہر خاور مانیکا کی اجازت سے خان صاحب کو تخلیہ میں ’’روحانیت‘‘ کا درس دیا کرتی تھیں۔ خان صاحب ان سے بہت متاثر تھے اور انہیں ’’مرشد‘‘ کا درجہ دیتے تھے۔ خان صاحب کے وزیراعظم بننے کے دن جوں جوں قریب آرہے تھے بشریٰ بی بی کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی وہ خان صاحب سے جلد از جلد خاندانی رشتہ قائم کرنا چاہتی تھیں تا کہ وہ اور مانیکا خاندان عمران حکومت میں زیادہ سے زیادہ مالی و مادی فوائد سمیٹ سکیں۔ عمران خان کی ریحام خان سے شادی ناکام ہوچکی تھی اور وہ تجرد کی زندگی گزار رہے تھے۔ چناں چہ بشریٰ بی بی نے پہلے اپنی جوان لیکن طلاق یافتہ بیٹی سے عمران خان کو شادی کی پیشکش کی لیکن دونوں کی عمروں میں اتنا فرق تھا کہ خان صاحب راضی نہ ہوئے۔ جب بشریٰ بی بی نے دیکھا کہ تُرپ کا یہ پتا ناکام ہوگیا تو انہوں نے اپنے شوہر سے طلاق لے کر خود کو نکاح کے لیے پیش کردیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے مانیکا خاندان اور اپنی اولاد کو پوری طرح اعتماد میں لیا اور انہیں بتایا کہ عمران خان سے نکاح کے بعد وہ ملک کی ’’خاتون اوّل‘‘ بن جائیں گی۔ پوری حکومت ان کی دسترس میں ہوگی اور وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹ سکیں گی۔ چناں چہ خاوند بھی انہیں بخوشی طلاق دینے پر راضی ہوگیا اور پورے خاندان مع ان کی اولاد نے انہیں عمران خان سے نکاح کی اجازت دے دی۔ رہا یہ معاملہ کہ یہ نکاح عدت کے دوران ہوا تھا تو ایک اہل حدیث عالم دین کے مطابق عدت میں نکاح کی سفلی عمل میں بڑی اہمیت ہے اس طرح عورت اپنے خاوند پر پوری طرح حاوی ہوجاتی ہے اور مرد کوئی فیصلہ اپنی بیوی کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتا۔
چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی ان کی پوری سیاست بشریٰ بی بی نے اپنے ہاتھ میں لے لی۔ انہوں نے اپنی عزیز سہیلی فرح گوگی کی خواہش پر عثمان بزدار کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوا دیا۔ اس شخص کی نااہلی اور ناتجربہ کاری واضح تھی۔ قومی سطح پر اس تقرر کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی ایس ہٹانے کا مطالبہ کیا اور یہ مطالبہ اس وقت کیا گیا جب اسٹیبلشمنٹ اور عمران حکومت ’’ایک پیج‘‘ پر تھے۔ لیکن عمران خان اَڑ گئے۔ انہوں نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا کیونکہ بشریٰ بی بی نے انہیں یہ یقین دلا رکھا تھا کہ ان کی وزارت عظمیٰ بزدار کی وزارت اعلیٰ سے بندھی ہوئی ہے۔ جس دن عثمان بزدار اپنے منصب سے محروم ہوئے تو دوسرے دن وہ بھی وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ عثمان بزدار کی آڑ میں فرح گوگی اور اس کا شوہر پنجاب پر حکومت کررہے تھے اور انہوں نے کرپشن کا بازار گرم کررکھا تھا۔ سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے یہ اطلاعات عمران خان تک بھی پہنچ رہی تھیں لیکن وہ بشریٰ بی بی کے خوف سے انہیں نظر انداز کرنے پر مجبور تھے۔ بشریٰ بی بی عمران خان کی سیاست پر پوری طرح حاوی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں جب عمران خان اقتدار سے محروم ہوئے تو قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کرنے اور احتجاجی سیاست شروع کرنے کا مشورہ بھی بشریٰ بی بی ہی نے انہیں دیا تھا کیوں کہ یہ احمقانہ مشورہ کوئی ہوش مند ساتھی انہیں نہیں دے سکتا تھا۔ خان صاحب کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے کے جو افسوسناک واقعات پیش آئے، ان کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ اگر کُھرا ناپا جائے تو وہ بھی بشریٰ بی بی تک جائے گا۔ اس وقت طاقتور حلقوں نے عمران خان کے گرد گھیرا بالکل تنگ کردیا ہے۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں یا تحریک انصاف کی قیادت کسی اور کے حوالے کردیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان حلقوں نے بشریٰ بی بی سے بھی رابطہ کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو سمجھائیں ورنہ وہ خود مشکل میں پھنس جائیں گی۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ خان صاحب نے اپنی اہلیہ کا مشورہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔ ایسے میں ایک ستارہ شناس کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ چلا تو اس مقدمے میں بشریٰ بی بی وعدہ معاف گواہ کے طور پر پیش ہوں گی۔