محاسبہ

629

سجل ملک اسلام آباد
کوفہ ایک بار پھر فتح ہوا، معصوم ابن زبیر تخت پر براجمان ہوا۔ اس کے سامنے مختار ثقفی کا سر کاٹ کر لایا گیا۔ اس نے فرمان جاری کیا جشن منائو دشمن اسلام مارا گیا، دربار میں بیٹھا ایک بوڑھا مسکرا دیا۔ معصب نے دریافت کیا کیوں ہنستا ہے بڈھے۔ بوڑھے نے کہا ماضی یاد آ گیا، حال سامنے ہے، مستقبل آدھا دکھائی دے رہا ہے۔ معصب نے کہا تفصیل سے بتایا جائے۔
بوڑھے نے بتانا شروع کیا کہ یہی دربار تھا عبداللہ ابن زیاد تخت پر بیٹھا تھا۔ حسین ابن علی کا سر لایا گیا، ابن زیاد نے کہا جشن منائو دشمن اسلام مارا گیا۔ ہم نے جشن منایا۔ ایک بار پھر یہی دربار ہے، مختار ثقفی کا سر تیرے تخت کے نیچے پڑا ہے یہ اسی تخت پہ بیٹھا تھا ابن زیاد کا سر کاٹ کے لایا گیا، مختار ثقفی نے فرمان جاری کیا جشن منائو دشمن اسلام مارا گیا اور ہم نے جشن منایا۔ آج وہی دربار ہے تو تخت نشین ہے مختار ثقفی کا سر کاٹ کر لایا گیا ہے اور تیرا حکم ہے کہ جشن منائو دشمن اسلام مارا گیا۔ ہم آج بھی جشن منائے گے۔ کل بھی یہی دربار ہو گا یہ تو نہیں جانتا کہ تخت پر کون ہو گا لیکن اتنا پتا ہے کہ سر تیرا ہو گا اور فرمان جاری کیا جائے گا کہ جشن منائو دشمن اسلام مارا گیا اور ہم جشن منائے گے۔ بوڑھے کی پیش گوئی کے عین مطابق کوفہ کے دربار میں عبدالملک بن مروان کے سامنے معصب بن زبیر کا سر پیش کیا گیا اور اس نے جشن منانے کا حکم دیا۔ کسی نے بوڑھے کی بات کا عبدالملک بن مروان کو ذکر کیا تو عبدالملک بن مروان نے فوراً دربار کی عمارت کو گرانے اور دربار کوفہ کو کسی اور علاقے میں تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
کیا صرف اندھی تقلید ہی ہمارا مقدر ہے؟ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہمیں چور اور کرپٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہے بس چور اور کرپٹ ہماری مرضی کا ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ قوم بھی اب کسی عبدالملک کو تلاش کرے جو اس عمارت کو گرا کر کسی نئی عمارت کی تعمیر کا حکم دے۔ ہمارے ملک میں کوئی بھی مرتا ہے یا کوئی نیا تخت نشین ہوتا ہے یا کوئی تخت سے گرایا جاتا ہے تو ہمارا کام صرف اور صرف جشن منانا رہ گیا ہے۔ تو آج ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ جشن منانے والے ہمیشہ نقصان میں رہے ہیں۔ ہمیں اس عمارت کو گرا کر نئی عمارت بنانا ہو گی تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا، انسانوں کی یہ بستی جو اب ڈارئونا جنگل بنتی جا رہی ہے اس میں جشن منانے کے بجائے ان وحشیوں کو جو دوسروں کا خون پیتے ہیں، گوشت کھاتے اور ہڈیاں چباتے ہیں اور برتری اور فوقیت کے مکانوں پر بیٹھ کر انسانیت کا شکار کر رہے ہیں تو اب وقت آگیا ہے کہ یہ نہ اوپر چڑھیں اور نہ نیچے آئیں بلکہ ایک دوسرے سے نگاہیں ملا کر بات کریں کیونکہ اگر بلندی و پستی کا یہ فتنہ قائم رہا تو آدمیت اپنا گوشت خود ہی نوچ نوچ کر کھا جائے گی۔