ـ2023 میں عام انتخابات ہوسکیں گے؟

1158

رواں سال اگست کے وسط میں موجودہ قومی اسمبلی بشمول سندھ و بلوچستان اسمبلیوں کی آئینی مدت ختم ہوجائے گی۔ اکتوبر میں عام انتخابات کروانا ایک آئینی و دستوری ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی اور شہباز شریف کی زیر قیادت تیرہ جماعتی پی ڈی ایم حکومت کے درمیان رسہ کشی کی شروعات بھی عام انتخابات کرانے کے لیے تاریخ مقرر کرنے پر ہوئی تھی جس کا انہیں خدشہ تھا کہ حکومت کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر ٹالتی رہے گی۔ جس کے بعد عدالت نے بھی نوٹس لیا مگر حکومت بجٹ اور معاشی صورتحال بہتر بنانے کا جواز تراش کر حیلہ جوئی کرتی رہی اور 14مئی کو پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کرانے کے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل بھی نہیں ہوسکا۔ اس دوران ہر دو جانب سے ایک دوسرے کو چور اور غدار وطن کے القاب، اور گرما گرم کشیدہ سیاسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے جذبہ ٔ خیر خواہی اور ملکی و قومی مفادات کے پیش ِ نظر امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے وفد کی صورت میں وزیراعظم شہباز شریف، پی ٹی آئی سربراہ عمران خان، چودھری شجاعت حسین اور دیگر سیاسی زعماء سے ملاقاتیں کر کے ان پر زور دیا کہ ملک پہلے ہی بے شمار مسائل کا شکار ہے اس لیے سیاسی قیادت کی ضد اور انا کی وجہ سے کسی حادثے سے بچنے کے لیے پوری سیاسی قیادت سر جوڑ کر ایک میز پر بیٹھ جائے، سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش اور آئندہ انتخابات کے لیے متفقہ طور پر تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ سراج الحق نے تو اپنے طور پر 14 اگست کو انتخابات کی تاریخ بھی دے دی تھی۔ اس دوران 9 مئی کے افسوس ناک واقعات رونما ہوگئے جس نے ملک کو پھر ایک نئے بحران سے دوچار کردیا۔ 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن اور پارٹی رہنماؤں کی گرفتاری سے لیکر پارٹی چھوڑنے کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ دیکھا جائے تو معاشی، سیاسی اور بدامنی کے حوالے سے اس وقت ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے۔ قابلیت اور گڈگورننس کی دعویدار پی ڈی ایم سرکارنے صرف ایک سال میں 14 ہزار 900 ارب کا رکارڈ قرضہ لیا۔ باہم متصادم عدلیہ اور پارلیمنٹ، مہنگائی کرپشن بے روزگاری، بیروزگاری اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سمیت بے شمار بنیادی مسائل نے عوام کی زندگی کو مذید اجیرن بناکر ملکی آ زادی، خودمختاری اور سالمیت کے لیے بڑے بڑے ہولناک طرح کے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔
ویسے تو کسی بھی حوالے سے حکمران اور پارلیمنٹ آئین و قانون پر عملدرآمد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے مگر جب کوئی مصیبت یا ذاتی مفاد آڑے آجاتا ہے تو پھر انہیں آئین و قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی یاد آجاتی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کا یہ موقف کہ ’’پہلے انتخابات یا ملکی استحکام‘‘ سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ لوگ کیوں آئین سے برعکس انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ شریف خاندان تو کئی مرتبہ حکومتوں میں رہا ہے اس وقت کون سا استحکام تھا؟ خیر ایسے میں اب تو استحکام پاکستان پارٹی بھی معرض وجود میں آچکی ہے۔ بروقت انتخابات ایک آئینی ضرورت ہے اس پر عمل کرنا جمہوریت کا تقاضا ہوتا ہے۔ دور نہ جائیں برادر اسلامی ملک ترکیہ کی ہی مثال لے لیں۔
جہاں کچھ عرصہ پہلے 11 صوبوں میں زلزلہ آیا۔ اس خطرناک زلزلہ میں 50 ہزار لوگ لقمہ ٔ اجل بنے جبکہ لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے دربدر ہوئے مگر اس کے باوجود ترکیہ میں مقرر تاریخ پر انتخابات کرائے گئے۔ اس خدشے کے باوجود کہ مخالفین زلزلے کے مسئلے پر حکومتی کمزوریوں کو کیش کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے مگر اردوان نے فتح و شکست کی پروا کیے بغیر زلزلے کو بہانہ بنانے کے بجائے بروقت صدارتی انتخابات کرائے۔ یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے کہ سیاسی اختلافات کو سیاسی انداز میں حل کیا جائے اس لیے 9 مئی کے واقعات یا معاشی استحکام کو جواز بناکر انتخابات کو ملتوی یا کوئی دوسرے راستے تلاش کرنا ملک وقوم کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ یادگار شہداء کی بے حرمتی سمیت 9 مئی کے واقعات کی پوری قوم نے مذمت کی ہے ایسے واقعات نہیں ہونے چاہیے تھے تاہم حالات کا اس انتہا تک پہنچنا خود حکومت اور اداروں کے لیے لمحہ ٔ فکر ہے۔
سیاسی پارٹیاں سیاسی میدان میں اپنے بیانیہ و منشور اور کردار کی بنیاد پر ووٹ کی پرچی کے ذریعے ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کرتی ہیں۔ کسی بھی پارٹی کو طاقت کی بنیاد پر توڑنے کی کوشش نہ پہلے اور نہ ہی اب کامیاب ہوسکے گی۔ یہی صورتحال اس وقت بھی دیکھنے میں آئی تھی جب 80ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی کو توڑ کر نیشنل پیپلزپارٹی اور 2002ء میں پیپلزپارٹی پیٹریاٹ بناکر پی پی کو اور ق لیگ بناکر ن لیگ کو توڑنے کی کوشش کی گئی مگر کیا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ختم ہوگئیں؟ اس لیے سیاسی انجینئرنگ یا نئی گنگ پارٹی بناکر معلق اسمبلی کی تشکیل کی کوشش کے بجائے موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہوتے ہی صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد آئینی ضرورت ہے۔ اب تو عدلیہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ ’’سیاسی مسائل مذاکرات اور بہتر انداز میں بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں۔ امید ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک میں عام انتخابات ایک ہی دن میں کرانے کے مسئلے پر اتفاق کرکے ملک کو بحرانوں سے نجات دلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گی‘‘۔ اس طرح پنجاب و کے پی کے میں انتخابات کے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کی گئی۔ جیسے جیسے عام انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے تو ویسے ویسے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرض کے آسرے سے لیکر ڈالر کی مسلسل اُڑان سے حکومت کو نت نئے بہانے مل رہے ہیں۔ اسکرپٹ تیار کرنے والے خود شش وپنج کا شکار ہیں۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی امداد کے بغیر فی الحال بجٹ بھی پیش کردیا ہے جس میں آئندہ انتخابات کے لیے 48ارب بھی مختص کیے جاچکے ہیں۔ اگلے روز وفاقی وزیر سینیٹر اسحاق ڈار کا پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے مطالبے کے مطابق عام انتخابات کے لیے بجٹ میں پیسے رکھیں تاہم اتحادیوں کی جانب سے تاخیرکے بیانات غیرآئینی نہیں ہیں اس کی آئین میں گنجائش موجود ہے۔
بہرحال ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے، آئین کی ضرورت اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے بروقت عام انتخابات کا انعقاد ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں سیاسی معاشی و اخلاقی بحران، سیاسی جوڑ توڑ اور کنگ پارٹی کے قیام کے پس منظر میں ملک میں عام انتخابات بروقت ہو سکیں گے یا موجودہ حکومت کو ملکی استحکام تک طول دیا جائے گا۔ ؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا!