وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے 17سال سے تعطل کے شکار کے فور منصوبے کا چوتھی بار افتتاح کرکے کراچی کے عوام کے ساتھ ایک اور دھوکا اور فراڈ کیا ہے۔ کے فور منصوبہ جماعت اسلامی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں تیار کیا گیا تھا اور اس کی تمام کاغذی کارروائی بھی مکمل کرلی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود آنے والی سٹی گورنمنٹ نے اس پر عمل نہیں کیا اور ایک انچ بھی اس پر کام نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں کراچی شہر مسلسل پینے کے پانی کے بحران سے دوچار رہا ہے۔ کے فور منصوبہ 650 ملین گیلن یعنی 65کروڑ گیلن یومیہ کا منصوبہ ہے جس کا پہلا فیز 260 ملین گیلن 26 کروڑ گیلن پر کام شروع ہونا ہے۔ کے فور منصوبہ منچھر جیل سے کراچی کو پانی فراہم کرنے کا انتہائی اہم منصوبہ ہے جس سے کراچی میں پانی کے سنگین بحران کے خاتمے میں بڑی مدد ملے گی۔ بدقسمتی سے ہر دوسال کے بعد حکومتیں سیاسی بنیادوں اور سیاسی مفادات کے لیے اس منصوبے کا افتتاح کر دیتی ہیں۔ دو سال قبل اس منصوبے پر 26ارب روپے کی لاگت آنی تھی اور آج بھی موجودہ وزیر اعظم پاکستان نے اس منصوبے کا افتتاح کیا اور 26ارب روپے میں اسے مکمل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ دو سال قبل مارکیٹ میں ڈالر کی جو قیمت تھی آج وہ کئی گنا بڑھ چکی ہے اور ان کے یہ اعلانات بھی دھوکا اور فریب ہی لگ رہے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں کہا کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور پاکستان کی معیشت میں کراچی کا حصہ 70فی صد سے بھی زائد ہے اور جو شہر پورے ملک کی معیشت کو چلا رہا ہے وہاں کے باسی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اس سے زیادہ اس ملک کی کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی۔ ہم ہر حالت میں کے فور منصوبے کو دوسال کے اندر مکمل کریں گے اور کراچی کے ہر گھر کو پانی فراہم کیا جائے گا۔ وزیرخارجہ بلاول زرداری نے کہا کہ کراچی شہر میں پاکستان کے وزیر خارجہ کے گھر میں پانی ٹینکروں کے ذریعے آتا ہے۔ بلاول کی اس بات سے خود ان کا تمسخر اڑا ہے۔ پندرہ سولہ سال سے بلاول زرداری کی پارٹی سندھ میں بلا شرکت غیرے حکمران ہے اور وہ اپنے پارٹی چیئرمین کے گھر میں بھی پینے کا پانی فراہم نہیں کرسکے۔ جماعت اسلامی اول روز سے کے فور منصوبہ پر آواز اٹھاتی رہی ہے۔ اس کے لیے اس بڑی جدوجہد احتجاجی دھرنے اور مظاہرے بھی کیے ہیں۔ اب جب کہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو ملنے والی کامیابی اور تحریک انصاف کی حمایت سے قوی امکان پیدا ہوگیا ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر باآسانی منتخب ہوجائے گا تو متحدہ، پیپلز پارٹی نے چوتھی مرتبہ K4 منصوبہ کا وزیراعظم سے افتتاح کرا کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس سے قبل کراچی سرکلر ریلوے کا بھی چار مرتبہ افتتاح کیا جاچکا ہے اور کراچی کے عوام کے ساتھ فراڈ اور دھوکا دیا گیا۔ چوتھی بار کے فور منصوبہ بھی ایک دھوکا اور فراڈ محسوس ہوتا ہے۔
حکمرانوں کو کبھی بھی کراچی کے عوام کے درد اور ان کی مشکلات کا احساس ہی نہیںکیا۔ وہ اسے سونے کا انڈا دینے والی مرغی کے سوا کچھ نہیں سمجھتے ہیں اور پورے شہر کو نوچ کر کھایا جارہا ہے اسے برباد کیا جارہا ہے۔ آج کراچی میں جتنی بھی سڑکیں بن رہی ہیں تین چار ماہ کے بعد ہی مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہیں سندھ حکومت کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے اور دونوں ہاتھوں سے اس شہر کو لوٹا جا رہا ہے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم گزشتہ تیس سال سے یہ کام کر رہی تھی اور سوائے لوٹ مار اورکمیشن کے ان سب نے کوئی کام نہیں کیا۔ 8ہزار ارب روپے کا سندھ کا ترقیاتی بجٹ اگر ایمان داری سے خرچ کر دیا جاتا تو پورا سندھ کم از کم لاہور جیسا ترقی یافتہ تو بن ہی جاتا لیکن ان بے حس حکمرانوں کو سندھ کے غریب عوام کی پریشانی اور مشکلات کا کوئی احساس نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مسلسل کراچی کی ساڑھے تین کروڑ عوام سے غلط بیانی اور جھوٹ بول رہی ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کو چھے آٹھ ماہ بعد جب کراچی کی یاد آتی ہے تو جعلی منصوبوں کا افتتاح کر کے کراچی کے عوام کو بے وقوف بنا دیا جاتا ہے۔
مردم شماری میں کراچی کی گنتی کم کر کے پہلے ہی کراچی کا استحصال اور ظلم کیا گیا ہے کراچی کی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کو ڈیڑھ کروڑ ہی گنا گیا ہے جو وڈیرہ شاہی ذہنیت کی علامت ہے۔ کیوں کہ سندھ کے وڈیروں جاگیر داروں کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ ان کی ناانصافی لوٹ مار کرپشن سے سندھ کی عوام میں لاوا پک رہا ہے اور وہ ان سے تنگ آئے ہوئے ہیں اگر کراچی میں درست مردم شماری ہوگئی تو پھر سندھ سے جاگیرداروں اور وڈیروں کی سیاست اور ان کی لوٹ مار کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گا۔ درست مردم شماری کے نتیجے میں کراچی کی صوبائی نشستوں میں اضافہ ہوگا۔ جس کے نتیجے میں سندھ کے شہری علاقوں سے بھی سندھ کا وزیراعلیٰ باآسانی منتخب ہوجائے گا۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے جس طرح سے سرکاری مشینری، حکومتی وسائل اور الیکشن کمیشن کی سرپرستی میں انتخابی دھاندلی اور غندہ گردی، بدمعاشی کی ہے اس نے پیپلز پارٹی کی جمہوریت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور کراچی کے عوام پیپلز پارٹی کے اس غیر جمہوری اقدامات پر اس سے نفرت کرنے لگے ہیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے جماعت اسلامی کی حمایت سے تو پیپلز پارٹی کے اوسان خطا ہوگئے ہیں اور وہ موجودہ سیاسی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف کے نو منتخب یوسی چیئرمینوں، وائس چیئرمینوں کو خوف زدہ اور ہراساں کر رہی ہے اور متعدد یوسی چیئرمین گرفتار بھی کر لیے گئے ہیں اس طرح کے اقدمات سے پیپلز پارٹی کراچی میں اپنا میئر لانے میں کامیاب ہوگئی تو پھر پیپلز پارٹی کی سیاست کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گا جگ ہنسائی اور ذلت کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔