تعویز الٹا پڑ گیا

935

یہ حقیقت ہے کہ 75 برس گزر جانے کے باوجود بر ِ صغیر کے ماحول میں ابھی تک ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ کہنے کو وہ خطہ جہاں پڑھے لکھوں کی تعداد کبھی 5 فی صد بھی نہیں ہوا کرتی تھی، وہاں اب تعلیم یافتہ افراد کی تعداد ساٹھ ستر فی صد تک جا پہنچی ہے لیکن اس کے باوجود جہالت ویسی کی ویسی ہی ہے۔ بے زبان بتوں کو خدا ماننے والے، قبروں میں مدفون انسانوں کو سننے، دیکھنے اور مرادیں پوری کرنے والا سمجھنے والے، مزاروں پر سجدہ کرنے والے، وڈیروں، نوابوں، ملکوں، چودھریوں اور سرداروں کو مائی باپ کہنے والے، اخلاقی لحاظ سے زانیوں، شرابیوں، ملک کی دولت لوٹنے والوں، سرمایہ داروں، کارخانے داروں اور جاگیرداروں کو راہبر و راہنما ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ تو ضرور دیکھنے میں آیا ہے، کمی کہیں سے کہیں تک نظر نہیں آئی۔ اگر کسی کے پڑوس میں کوئی قابل اور ذہین ترین انسان بھی رہتا ہو تو وہ عوام کی نظر میں اس لیے ان کا راہبر و رہنما کہلانے کا حق نہیں رکھتا کہ اس کے پاس ہنڈا ففٹی بھی نہیں۔ لوگ تو ان کو اپنا سردار مانتے ہیں اور اس کے ہاتھ پاؤں چومتے ہیں جس کا محل سیکڑوں ایکڑوں تک پھیلا ہوا ہو، قیمتی ترین گاڑیوں کا لشکر ہو، گھر سے جب باہر نکلتا ہو تو میلوں دور تک اس کی چمچماتی گاڑیاں نظر آتی ہوں، دنیا کے فراعین اسے جھک جھک کر سلام کرتے ہوں اور جب وہ اقتدار کی کرسی پر دراز ہو جائے تو اس کے گھر کی کال بیل تک کسی میں بجانے کی ہمت نہ ہو۔ یہ سب جہالتوں کی علامت نہیں تو پھر اور کیا ہے۔
مجھے اچھی طرح اپنی والدہ کا سنایا گیا واقعہ یاد ہے کہ ان کی ایک قریبی عزیزہ خاتون کالے علم کی بڑی ماہر تھیں اور اس علم میں اتنی طاق تھیں کہ وہ جس کو نشانہ بناتیں وہ مشکل ہی سے زندہ رہ پاتا۔ مرد و زن دور دور سے اپنے مخالفین پر عمل کروانے آتے اور بامراد جاتے۔ ایسے کام کوئی فی سبیل الشیطان تو کیا نہیں کرتا اس لیے حرام کی دولت کی ریل پیل نے انہیں اور بھی خونخوار بنا کر رکھ دیا تھا۔ جو جو ان کو جانتا تھا، ان کے سائے سے بھی بچ کر چلتا تھا۔ غیر تو غیر جو ان کے رشتے دار تھے وہ بھی ان سے سہمے سہمے رہتے تھے۔ والدہ کہتی ہیں کہ ان سے کسی معاملے پر ان کی جیٹھانی کی تلخی بڑھ گئی۔ بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی کوئی اتنا عاجز آ جاتا ہے کہ وہ دشمن کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہی ان کی جیٹھانی کے ساتھ بھی ہوا یہاں تک کہ انہوں نے کہہ دیا کہ دیکھتی ہوں تم میرا کیا بگاڑ لوگی۔ ایسی باتیں ایسے لوگ جن کے دل میں رحم نام کا کوئی جذبہ ہی نہ ہو، کب برداشت کرتے ہیں۔ وہ چڑیل نما خاتون طیش میں آکر یہ کہہ کر اٹھیں کہ دیکھ میں تیرا کلیجہ کیسے چیرتی ہوں، کمرے سے ایک بد شکل گڑیا اور ایک خنجر اٹھا کر لائیں، کئی منٹ تک نہ جانے کیا کیا پڑھتی رہیں اور پھر خنجر پر پھونک مارکر اسے گڑیا کے پہلو میں پیوست ہی کیا تھا کہ ایک بھیانک چیخ کے ساتھ خود زمین پر گر پڑیں اور تھوڑی ہی دیر میں منہ سے خون اگلتی دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔
ہر نیک و بد جانتا ہے کہ جہاں بر ِ صغیر کے مسلمان اسلام سے حقیقی لگاؤ رکھنے والے بھی بہت ہیں وہیں جہالت کے شکار لوگوں کی بھی کمی نہیں۔ خصوصاً وہ خطہ جس میں موجودہ پاکستان شامل ہے، یہاں کے عوام کو یا تو اسلام کے حقیقی عشق میں مبتلا کرکے یا پھر پیری فقیری کے چکر میں ڈال کر جس طرح کا کام لینا ہو لیا جا سکتا ہے۔ پاکستان بنا تو مرکزی کردار اسلام ہی تھا، پاکستان ٹوٹا تو مرکزی کردار اسلام ہی تھا، جتنی سیاسی تحریکیں چلیں، اسلام ہی کو رگڑا دیا گیا، جتنے بھی سیاسی لیڈر پیدا ہوئے سب اسلام اسلام ہی کا ورد کرتے رہے، ایوب خان بسم اللہ کے بغیر بات کیا ہی نہیں کرتا تھا، بھٹو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیکر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا، ضیا الحق پورا پورا قرآن پڑھ پڑھ کر لوگوں کو بیوقوف بناتے رہے، نواز شریف ان شا اللہ اور اللہ کے فضل و کرم کر کر کے کبھی تھکتے نہیں تھے، مذہبی جماعتیں تو خیر کووں کو بھی یہ کہہ کر ڈراتی رہیں کہ تمہارے خلاف ’’حلال‘‘ کا فتویٰ جاری کیا جا سکتا ہے، بھائی کی شبیہ کروٹن میں دکھائی دینے لگی تھی تو ایک آیا جو ایاک نعبد و ایاک نستعین کا سبق پڑھا کر عدت سے پہلے نکاح کو جائز بناتا رہا اور قوم ہے کہ مستند ہیروئنچی زانی اور شرابی کا پیشاب پینے اور پوٹی کھانے کی باتیں کرتی رہی۔
کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، کہاں تک ہوتا ہے، اس کی تو کسی کو خبر نہیں لیکن ایک پیرنی ایسی ضرور ہے جس کے ’’ایک دم نے کسی خان کو ایک دم‘‘ حکومت کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچا دیا۔ ہر گندے عمل کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کو رات دن جاری رکھا جا ئے سو ان کے وظائف چلتے رہے اور بنی گالہ میں دوسری جانب حوریں و غلمان رقص کنا رہے اور خان صاحب ’’جہاز‘‘ بنے رہے۔ اسی دوران زیادہ جلال کی وجہ سے کوئی ایک تعویز ایسا الٹا پڑا کہ ’’حافظ‘‘ کے بجائے ’’جاہل‘‘ شکار ہو گیا اور ایسا شکار ہوا کہ اب اس کی ذہنی کیفیت تک مشکوک ہو کر رہ گئی۔
سراب کبھی دریا نہیں ہوا کرتا، شیطانی عمل ہمیشہ نشانے پر ہی نہیں بیٹھا کرتا، منافقت حق نہیں ہو سکتی اور شرک کبھی پھول پھل نہیں سکتا، یہ سب باتیں وقتی تسکین تو پہنچا سکتی ہیں لیکن ہمیشگی سے محروم ہوتی ہیں۔ ریاست مدینہ کا نام بھی ایک سازش تھی اس لیے کہ مدینہ منورہ کبھی ’’یثرب‘‘ کہلاتا تھا اور معاہدے کے تحت اس میں عیسائی، یہودی، مشرکین سب کے سب رہ سکتے تھے۔ عمران کا ریاست مدینہ کا تصور ہی یہ تھا کہ اس میں قادیانیوں سمیت سارے غیر مسلم اْن ہی حقوق کے ساتھ زندگی گزاریں جو اہل یثرب کو حاصل تھے۔ اگر وہ سچا اسلام کا داعی ہوتا تو اسلامی نظام کی بات کرتا، شریعت کا نفاذ عمل میں لاتا، کلمہ لا الہٰ الا اللہ تک نہ پڑھا کرتا اور خاتم النبیین بار بار دہرائے جانے پر بھی نہ ہکلاتا۔ جو یہودیوں اور قادیانیوں کے سرمائے کے زور پر لایا گیا ہو وہ حقیقی اسلامی بات کیسے کر سکتا تھا۔ بے شک لوگ اب بھی نہیں سمجھیں گے اور اس کی مقبولیت کو ثابت کرنے پر لگے رہیں گے لیکن وہ یہ نہ بھولیں کہ انسانوں میں اب بھی بہت واضح اکثریت ابلیس ہی کے پجاریوں کی ہے لیکن اْس کے مقبول ہونے کا مطلب کیا یہ ہے کہ نعوذ باللہ وہ اللہ تعالیٰ کے تخت کا اصل وارث و حق دار ہے؟۔