بچوں کا اغوا، جعلی پولیس مقابلے اور جماعت اسلامی کا احتجاج

1147

چند روز قبل کندھ کوٹ کے ایک گنجان آباد محلے مرزا پور سے 4 سالہ کمسن اور معصوم بچے سمرت کمہار کو ڈاکوئوں نے اغوا کرلیا تھا جو تقریباً ایک ہفتہ تک ڈاکوئوں کے شکنجے میں رہا۔ ڈاکو مغوی بچے کی بازیابی کے لیے 50 لاکھ روپے بھُنگ (تاوان) طلب کررہے تھے جسے دینے سے بچے کے والدین قاصر تھے۔ مغوی بچے کی بازیابی کے لیے نہ صرف کندھ کوٹ کشمور بلکہ سندھ بھر میں عوامی، سیاسی اور سماجی سطح پر زبردست احتجاج کیا گیا جس میں جماعت اسلامی نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ کندھ کوٹ جماعت اسلامی نے امیر ضلع غلام مصطفی میرانی کی قیادت میں مغوی بچے کی بازیابی کے لیے مسلسل اور متواتر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا، جس میں صوبائی قیادت نے بھی شرکت کی۔ بالآخر یہ احتجاج رنگ لایا اور مغوی بچے سمرت کمہار کو شکارپور پولیس نے کچے کے علاقے گڑھی تیغو سے بازیاب کرالیا۔ بچے کو بازیاب کرانے والے ایس ایس پی امجد شیخ کے مطابق سندھ میں اب بچوں کے اغوا کا نیا ٹرینڈ یا رجحان در آیا ہے، کیوں کہ بڑوں کے مقابلے میں مغوی بچوں کے ورثا سے تاوان کی وصولی بڑی آسانی سے اور بہت جلد ہوسکتی ہے۔ سمرت کمہار کی بازیابی کے بعد سے کندھ کوٹ کشمور کے تاحال درجنوں پولیس اہلکاروں کی ڈاکوئوں سے روابط رکھنے کے الزام میں عہدوں سے معطلی، تنزلی اور برطرفی کی جاچکی ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امن وامان کے نفاذ محکمہ پولیس کے اہلکار اور افسران جرائم پیشہ عناصر سے رابطے استوار کرکے اور ان سے جرائم کی وارداتوں میں ملنے والے پیسوں میں سے اپنا حصہ وصول کرکے کس طرح سے اپنے فرائض سے شدید کوتاہی کا ارتکاب کررہے ہیں۔ اب تو محکمہ پولیس سندھ کے ذمے داران نے اس امر کا بھی برملا اعتراف کرلیا ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس وہ جدید ترین امریکی ساختہ مہلک ہتھیار موجود ہیں جو امریکی فوج فرار ہوتے وقت افغانستان میں چھوڑ گئے تھے۔ اور یہ بھی کہ کچے کے ڈاکوئوں نے بھارت سے تربیت حاصل کی ہے۔ سندھ پولیس کے حکام کے مطابق ڈاکو اپنے پاس موجود امریکی ہتھیاروں سے دو کلو میٹر دور تک پر واقع اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ساتھ ہی انہوں نے یہ دہائی بھی دی ہے کہ ہمارے پاس موجود ہتھیار اور وسائل ناکافی ہیں۔ حالاں کہ ایک اطلاع کے مطابق سندھ حکومت ہر سال سندھ پولیس پر دو سو ارب روپے سے زائد کی خطیر ترین رقم خرچ کرتی ہے جو یقینا بہت بڑی رقم ہے۔ لیکن ارادے کی کمی، کرپشن اور سیاسی مداخلت نے دیگر اداروں کی طرح سے سندھ پولیس کو بھی بالکل ناکارہ اور برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام اور میڈیا صوبے کے لیے ’’ڈاکو اسٹیٹ‘‘ اور بڑھتے ہوئے بے حساب جرائم کے پیش نظر ’’ڈاکو راج‘‘ اور ’’اغوا انڈسٹری‘‘ جیسی افسوس ناک اصطلاحات کا استعمال کرنے لگے ہیں۔
ایس ایس پی امجد شیخ کی یہ بات بھی سچ اور برحق دکھائی دیتی ہے کہ اب بچوں کے اغوا کا نیا رجحان در آیا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس وقت بھی کندھ کوٹ کے محمد عظیم مینک، ہنگورجہ کے جعفر بھٹو، سکھر کی پریا کمہاری، جیکب آباد کے نوید لاشاری، کندھ کوٹ کے راہب علی گولو، کوثر کھوسو، مرزا گولو اغوا برائے تاوان کی غرض سے ڈاکوئوں کے شکنجے میں قید ہیں اور ان سب بچوں کی عمریں بھی بمشکل 2 تا 10 برس کی ہیں۔ مغوی معصوم بچوں کی بازیابی کے لیے جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی اور سماجی تنظیموں کا سندھ بھر میں بڑے پیمانے پر زبردست احتجاج کا متواتر سلسلہ گزشتہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ واضح رہے کہ مغوی بچے جو ڈاکوئوں کے قبضے میں قید ہیں اس کے ساتھ ساتھ بڑی عمر کے درجنوں افراد بھی جن میں چند خواتین بھی شامل ہیں ڈاکوئوں کی قید میں ہیں۔ ایسے میں 10 برس قبل ٹھل جیکب آباد سے اغوا کی جانے والی فضیلہ سرکی کی یاد بھی اہل دل کو بے حد اداس اور غم زدہ کردیتی ہے جس کی عمر اغوا کے وقت بمشکل 9 برس تھی اور جسے پولیس تاحال بازیاب نہیں کرواسکی ہے۔ جس کی بازیابی کے لیے سندھ بھر میں احتجاج کرنے والے اس کے غریب والدین اپنی بیٹی کی جدائی کے صدمے میں ایک طرح سے اپنا ذہنی توازن تک کھو بیٹھے ہیں۔ ہمارے خفیہ ادارے جو کسی بندے کو تلاش کرنا چاہیں تو پاتال کی تہہ سے بھی ڈھونڈ لائیں، اگر وہ اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کریں تو غمزدہ والدین کی دعائیں بلاشبہ ان اداروں کے وابستگان کی دنیا و آخرت کو سنوار دیں گی۔ ’’دل ہر صاحب اولاد سے فریاد اور امداد طلب ہے‘‘۔
یہ سب المناک حقائق اپنی جگہ پر قائم اور برقرار تھے ہی کہ ہفتہ رفتہ ہی جیکب آباد کی تحصیل ٹھل کے نوجوان صدام لاشاری کو مقامی پولیس نے ایک جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر ڈالا۔ ایس ایچ او غلام نبی بجارانی اب اس حوالے سے شدید ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ایس ایس پی جیکب آباد ڈاکٹر سمیر نور چنا بھی۔ عوام، سوشل، پرنٹ، الیکٹرونک میڈیا، سیاسی اور سماجی جماعتیں سندھ بھر میں اس جعلی پولیس مقابلے کے خلاف شدید سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ خصوصاً جماعت اسلامی ضلع جیکب آباد اپنے امیر ضلع دیدار لاشاری اور امیر ٹھل امداد اللہ بجارانی کی زیر قیادت سخت احتجاج میں مصروف ہے اور احتجاجی مظاہروں کے توسط سے حکومت سندھ کے ذمے داران کو نوجوان سوشل ورکر صدام لاشاری کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے والے تمام کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ عوام بھی اس سانحہ پر شدید غم و غصہ میں مبتلا ہیں اور بجا طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ محکمہ پولیس سندھ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف تو کسی کارروائی کی جرأت، ہمت اور طاقت نہیں رکھتا البتہ اس کے بدعنوان اہلکار اور افسران جعلی پولیس مقابلہ کرکے بے گناہ افراد کو قتل کرنے میں ماہر اور
طاق ہیں۔ صدام لاشاری کے جعلی پولیس مقابلہ میں قتل کے خلاف حکومت سندھ نے ایس ایس پی شکارپور امجد شیخ اور ایس ایس پی لاڑکانہ عمران قریشی پر مشتمل دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے۔ دریں اثنا سندھ ہائی کورٹ نے ہنگورجہ کے معصوم اغوا شدہ 4 سالہ بچے جعفر بھٹو کی تاحال عدم بازیابی کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ ضلعی حکام اور ذمے داران سے فوری رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اس کا واضح مطلب تو یہی برآمد ہوتا ہے کہ جب تک کسی واقعہ یا سانحہ کے خلاف شدید عوامی ردعمل نہیں ہوگا۔ اس کا تدارک یا انصاف ہونا ناممکن ہے۔
25 سالہ نوجوان صدام لاشاری پر پولیس نے الزام لگایا ہے کہ وہ کرمنل ریکارڈ کا حامل تھا جب کہ اس کے ورثا اور اہل علاقہ کا موقف اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے مطابق مقتول صدام ایک سوشل ورکر تھا۔ مقتول کے اہل خانہ اور بوڑھے باپ مغل لاشاری کے مطابق پولیس اہلکار صدام کو جعلی پولیس مقابلہ میں قتل کرنے سے پہلے ان سے 10 لاکھ روپے اس کی رہائی کے عوض طلب کرتے رہے اور کیوں کہ وہ اتنی بڑی رقم دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے لہٰذا پولیس نے آباد تھانے کی حدود میں لے جا کر صدام کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں بے دردی کے ساتھ قتل کردیا اور بعدازاں اس کی نعش ورثا کے حوالے کردی گئی۔ صدام تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ اس موقع پر مقتول کے اہل خانہ اور بہنوں کی آہ و بکا دیکھی نہ جاتی تھی۔ واضح رہے کہ مقتول صدام کو ٹھل پولیس نے ایک موٹر سائیکل چھینے جانے کے کیس میں بغرض تفتیش 27 مئی کو ایک ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔ جسے اپنی تحویل میں دو دن تک رکھنے کے بعد اسے ایک جعلی پولیس مقابلے میں 10 لاکھ روپے رشوت کا مطالبہ منظور نہ کرنے پر فل فرائی (قتل) کردیا گیا۔ قبل ازیں ٹھل پولیس نے ایک ماہ قبل ایک شفیق نامی نوجوان کو بھی اسی انداز سے قتل کیا تھا۔ شفوسر کی عرفیت کے حامل نوجوان کو فل فرائی کرنے کے واقعے کے خلاف بھی سخت احتجاج ہوا تھا لیکن حالیہ احتجاج کی شدت اور حدت بہت زیادہ ہے۔
عوام کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر کوئی فرد سچ مچ بھی کسی جرم میں ملوث ہے بھی تو اسے پولیس بذریعہ عدالت سزا دلائے نہ کہ خود ہی قانون کو ہاتھ میں لے کر ملزمان کو ہاف فرائی کرکے دائمی معذور یا فل فرائی کے نام پر قتل کرتی پھرے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں ضلع جیکب آباد، کندھ کوٹ کشمور، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکارپور اور دیگر اضلاع میں پولیس بڑی تعداد میں ملزمان کو ہاف فرائی یا فل فرائی کرچکی ہے۔ پولیس کو اپنی یہ طاقت کچے کے ان ڈاکوئوں کے خلاف بھی استعمال کرنی چاہیے جنہوں نے عوام کی زندگی اجیرن کرڈالی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کے 80 فی صد اہلکار جرائم پیشہ عناصر کی براہ راست سرپرستی کرنے میں مصروف ہیں۔ واللہ اعلم۔ بروز اتوار 4 جون کو بھی امیر جماعت اسلامی ضلع جیکب آباد دیدار لاشاری کی زیر قیادت صدام لاشاری کے قتل کے خلاف ایک بہت بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کے شرکاء مقتول صدام کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے۔ جہاں ایک طرف سندھ میں بدامنی کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو یقینا بے حد قابل تشویش امر ہے وہیں یہ پہلو بھی خوش آئند ہے کہ جماعت اسلامی کی صوبائی اور مقامی قیادت بھی عوامی جذبات اور احساسات کو زبان دیتے ہوئے اور عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے مسلسل متواتر اور مستقل مزاجی کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم ہے۔ امیر ضلع کندھ کوٹ کشمور غلام مصطفی میرانی، امیر ضلع جیکب آباد دیدار لاشاری، امیر ٹھل امداد اللہ بجارانی کی زیر قیادت علاقے سے مغویوں کی بازیابی، پولیس گردی اور معصوم بچوں کے اغوا کے خلاف احتجاج اور دھرنوں میں مصروف ہیں۔ کندھ کوٹ میں منعقدہ امن ریلی میں امیر صوبہ محمد حسین محنتی نے بھی شرکت کی تھی۔ نائب امیر صوبہ حافظ نصراللہ چنا، ڈپٹی قیم صوبہ عبدالحفیظ بجارانی اور دیگر صوبائی ذمے داران جن میں ممتاز حسین سہتو بھی شامل ہیں مقامی قیادت کی ہمت افزائی کے لیے مستقل رابطہ میں رہتے ہیں اور احتجاج میں شامل بھی۔ سندھ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ہی نہیں عوامی سطح پر بھی مذکورہ سرگرمیوں کو پزیرائی مل رہی ہے۔ گوادر اور کراچی کے بعد یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ ان شاء اللہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی جو اُفق بہ اُفق پھیل کر پورے جہاں تک کو منور کر ڈالے گی۔