ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق جو زائد رقم اصل کے علاوہ وصول کرتا ہے وہ عربی میں ربوا اور ہماری زبان میں سود کہلاتا ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ سود لینے والوں میں حرص، لالچ، بخل اور خود غرضی جب کہ سود دینے والوں میں نفرت، غصہ، بغض و حسد جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ جس سے ایک ایسا بدبو دار معاشرہ وجود میں آتا ہے کہ انسانی محبت، اخوت، اور ہمدردی کی جڑیں کٹ جاتی ہیں۔ ایک گروہ کی بدحالی سے دوسرے گروہ کی خوشحالی کا سامان پیدا کرنا اجتماعی فلاح و بہبود پر کس قدر تباہ کن اثرات ڈالے گا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہاں اندازہ لگانے کے لیے اپنے ارد گرد، ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا پر چلنے والے اشتہارات پر نظر ڈالیے۔جو نت نئی کہانیوں اور واقعات پر مبنی ہیں۔ جن میں عوام کی مشکلات کا حل مختلف ایپس (ضرورت کیش ، ادھار پیسہ، منی بی، کوئن بی، مون لون، ایزی لون، اسمارٹ قرضہ، بروقت لون) ڈاون لوڈ کرنا اور اچانک ضرورت پڑنے پر صرف ایک کلک پر اکسایا جا رہا ہے۔ جس میں یہ ایپس تین ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک کا قرض آسان شرائط، کم از کم ادائیگی کا جھانسا دے کر یومیہ نو، تیس، اور ایک سو پچاس روپے سود کی وصولی کرے گی۔ جو نا صرف اعلانیہ سود کا کھلم کھلا پرچار ہے۔ بلکہ عوام میں چھوٹے پیمانے پر نیچے تک سود خواری کا یہ زہر ہر جگہ ہر وقت بہم پہنچایا جا رہا ہے۔ حتی کے ٹائر تک پنگچر ہو جائے تو آپ ایک کلک پر لون حاصل کر سکتے ہیں۔ ہر جگہ فوری دستیابی کے ذرائع عوام خصوصاً نئی نسل کو ایسے شکنجے میں جکڑا جا رہا ہے کہ آنے والے وقت میں فوری ملنے والی یہ وقتی آسانی زندگی کو انتہائی مشکلات میں پھنسا دے گی۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر معصوم اور سادہ غریب عوام ہی اس چنگل میں گرفتار ہوں گے۔ جب کہ ستم ضریفی کہ حکومتی اداروں نے اس طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ خدارا ذرا غور کیجیے کہ قرض کی یہ قسم انتہائی خطرناک حد تک سنگین نتائج اختیار کرے گی۔ لہٰذا میری گزارش ہے کہ اس سے پہلے نئی نسل کا زیادہ تر حصہ اس دلدل میں گرے ’’بروقت ایپ‘‘ کے استعمال کو بروقت روکیے۔ اور اس کے خلاف جہاں، جیسے ممکن ہو آواز اٹھائیے۔
نادیہ سیف
جرم یا آزمائش
نہ آسمان پھٹا نہ زمین روئی جب ایک بے غیرت ڈکٹیٹر نے چند ڈالر کے عوض قوم کی بیٹی کو بیچ دیا۔ بوڑھی ماں برسوں راہ تکتے منوں مٹی تلے دب گئی۔ معصوم بچوں کی آہیں، سسکیاں آنسوبن کے خشک ہو گئیں مگر اُسے نہ آنا تھا وہ نہ آئی۔ اس کی چیخ و پکار برسوں کا کرب کسی کو نظر نہ آیا ماں نے ہر حکومت کے آگے جھولی پھیلا کر بھیک مانگی میری بیٹی میرے جگر گوشے کی واپسی کسی طور ممکن ہو سکے مگر وعدے اور جھانسے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ جب بے غیرت حکمران ایوان کی کرسیوں پر براجمان ہوں تو قوم کی بیٹیاں یوں ہی بے موت ماری جاتی ہیں۔ کتنے ہی رمضان کتنی ہی شب قدر نہ آ ئی ہوں گی اس بیچ مگر رحمت خداوندی کو جوش نہ آیا کہ اس بے گناہ کی داد رسی ہو سکے۔ جب اقتدار کی باگ ڈور نااہل کے ہاتھ میں ہو اور ملک پر قابض گروہ ٹکے ٹکے میں بک جائے تو عافیہ صدیقی جیسی زندہ لاشیں قوم کے لیے بددعا بن جاتی ہیں۔ وہ اپنے جرم کی نہیں بلکہ قوم کی آزمائش کی سزا کاٹتی ہیں۔ عرب قیدی کے بقول قیدی نمبر چھے سو پچاس کی چیخیں جو کوئی پاکستانی خاتون تھیں ہمیں سونے نہیں دیتیں آج بھی سنائی دیتی ہیں۔ کیا دنیا میں کوئی جرم ایسا بھی ہے جس کی سزا بیس سال سے زیادہ ہو مگر ہاں۔ قوموں کی غفلت کی سزا برسوں نہیں صدیوں پر محیط ہوتی ہے۔
قومی شعور بیدار ہو تو ایٹمی بموں کا شکار قومیں پھر سے جی اٹھتی ہیں اور اگر قوم کا شعور دفن ہو جائے تو ایٹمی قوت کے حامل ملک بھی دفن ہوجایا کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے واحد سینیٹر مشتاق احمد اس وقت امریکا میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی سے ہم کنار کرے۔ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی پاکستانی قوم کے شعور کی واپسی ثابت ہو۔ اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم کو عقل وشعور دے کہ وہ ملک کے لیے اہل حکمران کا انتخاب کریں کہ غیرت مند حکمران ہی ملک کی بیٹیوں کی عزتوں کے محافظ ہوتے ہیں۔
صائمہ عبد الواحد، کراچی
لوڈشیڈنگ
میں حکام کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ کافی دنوں سے ہمارے علاقے سلطان آباد میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ گھنٹوں گھنٹوں بجلی نہیں ہوتی، چاہے دن ہو یا رات۔ جب کہ آج کل گرمی زوروں پر ہے اور لوڈشیڈنگ بھی تین تین گھنٹے دن میں چار بار جاتی ہے، ایسے میں طالب علموں کی پڑھائی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ بچے، بزرگ اور بیمار بھی اچھے خاصے بے آرام ہوتے ہیں، بجلی کے بغیر دن کا آرام اور رات کا سکون غارت ہو کر رہ گیا ہے۔ پورا پورا دن بجلی نہ ہونے کے باوجود بھاری بھرکم بلوں نے عذاب کی صورت اختیار کرلی ہے، اس قدر مہنگائی میں بجلی کے بلوں نے غریب آدمی سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے لیکن حکام کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔حکمران اس کا کوئی حل نکالیں۔
فہد رمضان، سندھ مدرستہ السلام
نئے گیس کنکشن سے پابندی ختم کی جائے
وزیراعظم پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ نئے گیس کنکشن پر پابندی ختم کریں۔ جن علاقوں میں گیس فراہمی کا نیٹ ورک موجود ہے ان علاقوں میں بھی نئے کنکشن کی فراہمی پر پابندی لگا کر حکومت اور عوام دونوں کے لیے مشکلات پیدا کردی گئی ہیں، لہٰذا ان علاقوں میں فوری پابندی کے خاتمے کی ضرورت ہے۔
صغیر علی صدیقی، خادمین ملت پاکستان