خالصتان!! بھارت کے گلے کی پھانس

1068

دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سکھوں نے اپنے الگ وطن کے لیے خالصتان ریفرنڈم کے نام سے عالمگیر مگر پرامن جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کے سکھ اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ بھارت پوری توانائی استعمال کرکے بھی اس مہم کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ ریفرنڈم کا ایک اور مرحلہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونے والا ریفرنڈم تھا جس میں اکتیس ہزار سکھوں نے شرکت کی اور اپنا فیصلہ خالصتان کے حق میں سنایا۔ اس سے پہلے ملبورن اور برسبین کے شہروں میں سکھوں نے بھاری تعدا د میں ریفرنڈم میں حصہ لیا تھا۔ اس موقع پر سکھوں نے خالصتان کے حق میں نعرہ بازی بھی کی۔ ہندوستانی کمیونٹی نے یہ ریفرنڈم رکوانے کی کوشش کی جسے کامیابی نہیں ملی۔ اس موقع پر ووٹروں کا کہنا تھا کہ سکھ قوم اب آزادی سے کم کچھ قبول نہیں کرے گی۔ خالصتان کونسل کے صدر ڈاکٹر سندھو نے کہا کہ سکھ قوم ہندوستان کے تسلط اور استحصال سے نجات کے لیے آزادی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ہم بھی ریفرنڈم کا وہی حق چاہتے ہیں جو برطانیہ اور کینیڈا اپنے شہریوں کو دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سکھوں نے بلٹ کے بجائے بیلٹ کا راستہ چنا ہے۔ دو برس قبل بدنام زمانہ آپریشن بلو اسٹار کی سینتیسویں برسی کے موقع پر بھارتی پنجاب سمیت دنیا بھر میں سکھوں نے احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ ان مظاہروں کے دوران دربار صاحب امرتسر سمیت کئی مقامات پر خالصتان کے پرچم لہرائے گئے تھے۔ لندن میں بھارتی ترنگا نذر آتش کیا گیا۔ دربار صاحب میں ایک بڑے اجتماع میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی تصاویر اور خالصتان کے پرچم لہرائے گئے تھے۔ جس کے بعدگوردوارہ پر مندھک کمیٹی نے مظاہرین کے اس حق کا بھرپور دفاع کیا تھا۔ اس سے پہلے بھارت کے اخبار انڈیا ٹوڈے کی لندن کی نامہ
نگار نے اطلاع دی تھی کہ ہیلوک روڈ ساوتھ ہال برطانیہ میں سکھوں کے سب سے بڑے گوردوارے ’’گورو سری نگھ سبھا‘‘ کے باہر سکھ مذہب کے پانچویں گوروار جن دیو کے ساتھ خالصتان نواز مقتول لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی قدآدم تصویر نصب کر دی گئی ہے۔ نامہ نگار نے اس صورت حال پر ایک جملے کی صورت اپنی ناگواری کا اظہار یوں کیا تھا کہ ارجن دیو نے سکھ مذہب کے لیے جان دی جبکہ بھنڈرانوالہ پر سکھوں کے نام پر لوگوں کی جانیں لینے کا الزام ہے۔ اخبار کے مطابق اسی گوردوارے میں خالصتان کے لوگو والی جیکٹیں پہنے لوگ کورونا بحران کے دوران مستحق عوام میں امدادی پیکٹ تقسیم کرتے رہے۔ برطانیہ میں ’’ریفرنڈم خالصتان 2020‘‘ کی زوردار مہم بھی کورونا کی وجہ سے ملتوی ہوگئی تھی مگر اس کے باوجود خالصتان کا مسئلہ ختم نہیں ہوا۔ یہ جون کا پہلا ہفتہ ہے اور یہ مہینہ اور ہفتہ ہر سال دنیا بھر میں پھیلے سکھوں کے برسوں پرانے زخم تازہ کرجاتا ہے۔
1984 کا سال سکھوں کے قومی حافظے کے ساتھ مستقل طور پر چپک کر رہ گیا ہے جب بھارتی حکومت اور ریاست نے آزاد وطن کے لیے سکھوں کی مقبول تحریک کو دربار صاحب امرتسر میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے کچل کر رکھ دیا تھا۔ اس تحریک میں آئیکون کی حیثیت رکھنے والے نوجوان سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی اس خونیں آپریشن میں کام آئے تھے۔ بھنڈرانوالہ کا ظہور سکھوں میں اس احساس زیاں کا نتیجہ تھا جس نے آزادی ہند کے وقت سکھ لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کی طرف سے کانگریس کا ساتھ دینے سے جنم لیا تھا۔ ماسٹر تارا سنگھ نے قائد اعظم محمد جناح کے باربار سمجھانے کے باجود اپنا وزن کانگریس کے پلڑے میں ڈالا اور یوں پنجاب تقسیم بھی ہو گیا اور اس تقسیم نے بدترین فسادات کی بنیاد بھی رکھی۔ آزادی کے بعد نئی دہلی کے سلوک نے سکھوں کی نئی نسل کو یہ باورکرایا کہ ان کی قیادت کا فیصلہ قطعی غلط اور مصلحت پسندی پر مبنی تھا۔ اسی احساسِ زیاں نے سکھ نوجوانوں کا انقلابی راستوں کی جانب مائل کیا۔ شعلہ بیاں بھنڈرانوالہ نے اپنی تقریروں سے پنجاب کے کھیت وکھلیان میں آگ سی لگا دی۔ پہلے پہل اندرگاندھی نے سکھ نوجوانوں کی اس تحریک کو پنجاب میں اپنی سیاسی حریف سیاسی جماعت اکالی دل کو سیاسی نقصان پہنچنے کی امید پر حالات سے نظریں چرائے رکھیں جب انہیں یہ اندازہ ہوا کہ سکھ نوجوان وقتی سیاسی مقاصد کے بجائے خالصتان کو ایک نظریے کے طور پر اپنا چکے ہیں تو بھارتی حکمرانوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہوںنے اس تحریک کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔
بھنڈرانوالہ نے سکھوں کے سب سے متبرک مقام دربار صاحب امرتسر میں مورچہ لگالیا اور وہیں سے خالصتان تحریک کا پرچار کر نے لگے۔ اندرا گاندھی نے دربار صاحب کو بھنڈرانوالہ سے چھڑانے کے لیے آپریشن بلو اسٹارکے نام سے فوجی آپریشن کی منظوری دی اور جون کے پہلے ہفتے سے بھارتی فوج نے ٹینکوں اور بکتر گاڑیوں سے دربار صاحب کا محاصرہ کر لیا۔ یہاں تک کہ سات جون کی شب بھارتی فوج نے دربار صاحب کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس آپریشن میں بھنڈرانوالہ سمیت خالصتان تحریک کی اعلیٰ قیادت ماردی گئی جبکہ سیکڑوں عام لوگ بھی مارے گئے۔ اس آپریشن کے خلاف احتجاج کے طور سکھوں نے فوج اور پولیس اور بیوروکریسی سے استعفے دیے۔ سابق سکھ فوجیوں نے اپنے تمغے اور خطاب واپس کیے اور یوں سکھوں نے ریاست کے اس اقدام کو اجتماعی طور پر مسترد کر دیا۔ چار ماہ بعد دو سکھ محافظوں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو قتل کر دیا اور یوں سکھوں پر چار ماہ بعد ایک اور قیامت برپا ہوئی۔ اس واقعے کے ردعمل میں ہندوئوں نے ہزاروں سکھوں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس کے بعد سے خالصتان تحریک پنجاب کے میدانوں سے یورپ اور امریکا تک پھیل گئی۔
سکھوں کی تحریک کی طرز پر ہی چند سال بعد کشمیری نوجوانوں نے مزاحمت کا آغاز کیا اور بھارت نے اس تحریک کو بھی طاقت سے کچلنے کی کوشش کی مگر بتیس برس ہوگئے بھارت کو ہر محاذ ہر ناکامی ہورہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا کشمیری ہیرو بندوق لہراتا ہوا میدان میں نکلتا ہے اور بھارت کو عاجز اور بے بس کر دیتا ہے۔ لندن کے گوردوارے میں بھنڈرانوالہ کی تصویر کا سجنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کشمیریوں کی طرح سکھوں کے دل سے بھی آزادی کی خواہش ختم نہیں کر سکا۔ سکھ تحریک بھارت کے گلے کی ایک ایسی پھانس بن چکی ہے جو نہ اُگلی جائے ہے نہ نگلی جائے۔ اس تحریک کو کشمیر سے جو بات الگ کرتی ہے وہ مذہب کا معاملہ ہے۔ مذہب کا معاملہ عالمی سطح پر ڈپلومیسی میں ایک حقیقت بن چکا ہے بالخصوص نائن الیون کے بعد تو کشمیر اور فلسطین کو ایک مخصوص عینک سے دیکھا جا رہا ہے۔ خالصتان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ سکھ اب امریکا برطانیہ اور کینیڈا جیسے ملکوں میں فیصلہ ساز اداروں کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ پرتشدد کارروائیوں سے الگ ہو کر تحریر وتقریر کے ذریعے اپنے مطالبات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ ان کی مغرب کی قبولیت کی وجوہات ہیں۔ اس لیے کشمیر کی تحریک کے برعکس سکھوں کی عالمی سرگرمیوں میں بھارت کے لیے گھبرانے کا سامان موجود ہے۔