بتایا جاتا ہے کہ نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے جس میں ایک خصوصی دیوار بنائی گئی ہے، اس دیوار کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس عنوان کے تحت دیوار پر برطانوی دور کے متحدہ ہندوستان کا وہ نقشہ بنایا گیا ہے جس میں پاکستان سمیت کئی ملک کے علاقے شامل تھے۔ تحریک آزادی کے نتیجے میں متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا اور دو بڑے ملک بھارت اور پاکستان وجود میں آگئے، پھر کئی سال بعد پاکستان کا مشرقی بازو اپنی الگ شناخت کے ساتھ بنگلادیش بن گیا۔ اب یہ تینوں ملک اپنی آزاد و خودمختار حیثیت سے عالمی برادری میں اپنا وجود رکھتے ہیں اور اقوام متحدہ کے معزز ارکان شمار ہوتے ہیں، لیکن بھارتی قیادت اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعتیں بھی اس وہم میں مبتلا ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب یہ تینوں ممالک مل کر ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا روپ دھار لیں گے اور اس پر ہندوئوں کی حکمرانی ہوگی۔ بھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں ’’اکھنڈ بھارت دیوار‘‘ کا چرچا ذرائع ابلاغ میں بھی ہورہا ہے۔ چناں چہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا خیالی تصور بھارت کا بے جا دعویٰ اور توسیع پسندانہ ذہنیت کا مظہر ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارت نہ صرف اپنے پڑوسی ملک بلکہ اپنی سرزمین پر آباد مذہبی اقلیتوں کی شناخت اور ثقافت کو بھی مسخر کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے باز آجائے، پڑوسی ملکوں کے ساتھ باہمی تعاون پر مبنی پُرامن تعلقات قائم کرے اور اپنی سرزمین پر آباد مذہبی اقلیتوں کے انسانی حقوق کا احترام کرے۔
پاکستان نے اگرچہ خطے میں فساد اور محاذ آرائی کو روکنے کے لیے بھارت کو بہت صائب مشورہ دیا ہے لیکن اس بات کی بہت کم توقع ہے کہ وہ اس مشورے پر دھیان دے گا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی ہندو قیادت جس کی سیاسی نمائندگی انڈین کانگریس کررہی تھی، ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھی اور چاہتی تھی کہ انگریز ہندوستان سے رخصت ہوں تو اقتدار اس کے سپرد کرجائیں اور وہ ہندوستان میں آباد غیر ہندو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو اپنے پنجہ ٔ ستم میں کَس کر اُن پر حکمرانی کرے اور اُن سے وہ ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے جو وہ ہندوستان پر کرچکے تھے۔ انگریز ہندوستان آئے تو اُس وقت مسلمان اس خطے پر حکومت کررہے تھے۔ انہوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کو پروموٹ کیا، زندگی کے ہر شعبے میں اُن کی سرپرستی کی اور انہیں آگے بڑھایا۔ اس طرح ہندو خود کو انگریزوں کا جانشین سمجھتے تھے اور انڈین کانگریس کو توقع تھی کہ اس کی برپا کردہ تحریک آزادی کے نتیجے میں جب انگریز ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوں گے تو اس خطے کا اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آگرے گا۔ کانگریس میں مسلم زعما بھی شامل تھے، جن کی نظر صرف ہندوستان کی آزادی پر تھی۔ انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کا کیا بنے گا اور ہندو اکثریت ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟۔ اس پر اُن کی کوئی نظر نہ تھی، ابوالکلام آزاد ایسا عبقری مسلمان رہنما بھی کانگریس کا حاشیہ بردار بنا ہوا تھا۔ ایسے میں علامہ اقبال نے صورتِ حال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے الگ وطن کا تصور پیش کیا۔ اس تصور کو تحریک کی شکل دینے کے لیے ان کی نظر انتخاب بیرسٹر محمد علی خان پر پڑی جو مسلمانوں کے مستقبل سے مایوس ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ دونوں دانشوروں کے درمیان طویل خط و کتابت ہوئی۔ علامہ اقبال بالآخر محمد علی جناح کو ہندوستان واپس آنے اور مسلمانوں کی قیادت پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہے۔ مسلم لیگ اگرچہ پہلے سے موجود تھی لیکن اس کے پاس کوئی سیاسی ہدف نہ تھا۔ علامہ اقبال نے اسے ایک سیاسی ہدف دیا اور محمد علی جناح اس ہدف کو لے کر مسلم لیگ کا پرچم اُٹھائے میدان میں نکل آئے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا، انہیں آنکھوں پر بٹھایا اور انہیں قائداعظم کے خطاب سے نوازا، قائداعظم نے بھی مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن ’’پاکستان‘‘ کا مقدمہ بڑی مہارت اور جانفشانی سے لڑا اور کانگریس کی ساری حیلہ سازیوں کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔
پاکستان ایک جیتی جاگتی حقیقت بن گیا اور ہندوستان کی آزادی کے پہلے مرحلے ہی میں ہندو نیتائوں کا ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا خواب بُری طرح بکھر گیا لیکن وہ اس خواب سے دستبردار ہونے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان بن تو گیا ہے لیکن زندہ نہ رہ سکے گا اور ایک پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آگرے گا۔ چناں چہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت کانگریس حکومت نے پاکستان کے اثاثے روک لیے۔ بٹوارے میں بھی شدید ناانصافی کی گئی، بعد میں بھارت نے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر پر فوج کشی کرکے پاکستان کے آبی وسائل پر قبضہ کرلیا اور کشمیری عوام کو بھی ان کے حق آزادی سے محروم کردیا۔
ان تمام ناانصافیوں کے باوجود قدرت نے پاکستان کی یاوری کی اور وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا۔ یہاں تک کہ وہ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود 1998ء میں ایک مسلم ایٹمی قوت بھی بن گیا لیکن بھارت کی انتہا پسند قیادت ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے خواب کو ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ وہ 1971ء میں پاکستان کے مشرقی بازو کو کاٹنے کا تلخ تجربہ کرچکی تھی لیکن یہ بازو بھارت سے جڑنے کے بجائے ایک الگ ملک بن گیا اور اکھنڈ بھارت کا خواب پھر بھی پورا نہ ہوا۔ اب باقی ماندہ پاکستان ایک زندہ حقیقت اور ایک ایٹمی طاقت ہے لیکن بھارتی قیادت کی آنکھ پر تعصب، نفرت اور عدم برداشت کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ وہ بلوچستان میں علٰیحدگی کی مسلح تحریکوں کی سرپرستی کررہی ہے۔ اس کے ایما پر سندھ میں ’’سندھو دیش‘‘ کا نعرہ لگانے ولے بھی موجود ہیں، وہ کراچی میں گڑبڑ کرانے کے لیے ایم کیو ایم کا دست و بازو بنی رہی ہے اور الطاف حسین آج بھی اس کے پے رول پر ہے۔ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے پاکستانی طالبان کو فنڈنگ کررہی ہے۔ بھارتی قیادت نے میٹھی چھری بن کر پنجاب میں نواز شریف کو بھی اپنا آلہ کار بنالیا تھا۔
کیا بھارت کی ان ریشہ دوانیوں سے اس کا ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا خواب پورا ہوجائے گا؟۔ حالات و واقعات گواہی دے رہے ہیں کہ ایسا ہرگز نہ ہوسکے گا، اگر اس خطے میں کوئی تبدیلی آئی تو مزید آزاد و خود مختار ملک بنیں گے اور خود بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے کہ یہی ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے خواب کی تعبیر ہے۔