لیڈر کے اوصاف

1064

گزشتہ دس پندرہ سال سے پاکستانی سیاست دانوں کے منہ سے جو چیز سب سے زیادہ سُننے میں آئی ہے وہ سیاست دانوں کی بے لگام اور بازاری زبان ہے جو وہ اپنے جلسے جلسوں میں اپنے مخالفین کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کو آپ غیر مہذب اور بازاری زبان بھی کہہ سکتے ہیں اور عوام بھی اپنے چاہنے والے لیڈروں کے منہ سے نکلے ہوئے بے ہودہ اور غیر شائستہ الفاظ کو سُن کر نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ واہ واہ کہ کر خوب تالیاں بھی بجاتے ہیں یہ حال ہے ہمارے معاشرے کا، اور ہمارے ملک کے سیاست دانوں کا، اُس پر المیہ کہ نہ شرم نہ لحاظ نہ ندامت، جس معاشرے کی یہ حالت ہو کہ جہاں ہر شخص مفاد پرست، دھوکا دہی کو درست سمجھنے والا ہو تو وہاں نیک سیرت حکمرانوں کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ آپ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ لیڈر کن خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے، اور لیڈر کو کیسا ہونا چاہیے۔
یاد رکھیں لیڈر پبلک پراپرٹی ہوتا ہے، اُس کا اُٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا بات کرنا سب نوٹ کیا جاتا ہے، حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے منہ سے نکلے الفاظ اقوال بنتے ہیں، اُس کے افعال اُسے لیڈر کی حیثیت عطا کرتے ہیں، لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی طاقت اور اپنی کمزوریوں دونوں سے واقف ہو، اور ہمیشہ اپنے آپ کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہو، اور ایک اخلاقی ضابطے کے تحت زندگی گزارتا ہو، اور دوسروں کے لیے قابل تقلید زندگی گزارتا ہو، حالات کا دلیری اور اعتماد سے مقابلہ کرتا ہو، تقاضے خواہ کچھ بھی ہوں وہ اپنے کام کو مکمل کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹتا، نتائج خواہ کچھ بھی ہوں وہ ان کی پوری ذمے داری قبول کرتا ہو، وہ اپنے رفقائے کار کو ایک ٹیم کے طور پر تربیت دیتا ہو اور پُرحکمت، پُرجوش اور منصفانہ انداز میں ان کی قیادت کرتا ہو، سب سے بڑھ کر یہ کہ لیڈر ایسا ہو جو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ حیثیت میں ہر قسم کی قربانیاں دینے پر آمادہ رہتا ہو، جو لیڈر بننے کے لیے ضروری ہوتی ہیں، کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس ملک میں سوائے ایک جماعت کے کوئی سیاسی جماعت ایسی ہے جس کے لیڈر میں ایسی صلاحیت موجود ہے جس کو اپ اپنا آئیڈیل بنا سکتے ہوں؟ جس ملک کے لیڈر کو اپنے ملک میں بارہ موسم نظر آتے ہوں اُس کے سیاسی ویژن کا اندازہ لگانا کون سا مشکل کام ہے ایک یہ ہی نہیں آوے کا آوا ایسا ہی ہے، لیڈر کو تو بھروسا مند ہونا چاہیے جو اپنے فرائض کو بخوبی پورا کرتا ہو جو کہتا ہو وہ کر کے دیکھاتا ہو، سیاست میں آپ کے پاس اپنا قول اور اپنے دوست ہی تو ہوتے ہیں، کسی ایک سے روگردانی کریں گے توسیاسی طور پر مار دیے جائیں گے، جیسا کہ ماضی میں ہوا، بھروسا مندی اور قابل انحصاری کی خصوصیات کو اپنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے حمایت کنندگان کے ساتھ مخلص رہیں وعدے نبھانے کے معاملات میں اپنی ساکھ بنائیں، حکمت اور معاملہ فہمی سیکھیں، حکمت نام ہے دوسروں کو اس انداز سے رکھیں کہ ان کی دل آزاری نہ ہو، معاملہ فہمی سے مراد ہے درست موقع پر درست بات کرنے کے ہنر سے آشنائی ہو، ان صفات کو اپنے اندر پانے کے لیے آپ کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہو گی، حکمت و معاملہ فہمی کسی کو دھوکا دینے، منافقت سے کام لینے یا جھوٹ بولنے کا نام نہیں یہ سیاست کا ایک فن ہے۔ میرے نظریے کے مطابق ’’حکمت و معاملہ فہمی‘‘ ایک لیڈر کی عقل و دانش اور اس کی کامیابی کا راستہ ہے، لیڈر کے پاس ایک واضح نصب العین یا احساسِ حقیقت موجود ہونا ضروری ہے، اس سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لیڈر جبلی طور پر اشیاء کے افعال اور وقوع کے طریق کار سے واقف ہے، اور یہ بات لیڈر کو ہر معاملے کی گہرائی میں اُترنے کے قابل بناتی ہے‘‘۔ عظیم قیادت کو عظیم نصب العین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسا نصب العین جو لیڈر کو کام کرنے کی تحریک دے اور اسے پوری قوم کو تحریک دینے کے قابل بنائے۔ لوگ ایسے لیڈروں سے محبت بھی کرتے ہیں اور نفرت بھی، ان کے متعلق کوئی معتدل رویہ اپنانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ایک لیڈر کے لیے صرف اچھائی سے واقف ہونا کافی نہیں۔ اسے اچھائی پر عمل کرنے کے قابل بھی ہونا چاہیے۔ درست فیصلے کرنے کی قوت سے عاری اور نصب العین سے محروم کوئی فرد کبھی لیڈر نہیں بن سکتا، مضبوط لیڈر وہ ہوتا ہے جو دیانتداری، باہمی ہمدردی اور ایک بہترین سامع ہونے کی اہلیت رکھتا ہو، تاکہ وہ مسائل کے ایسے حل نکال سکے جو عوام کے ایک بڑے حصے کے لیے قابل قبول ٹھیریں، حقیقی لیڈر اور مربی وہ ہوتا ہے کہ جس کے کردار کا نقش لوگوں کے قلوب و اذہان پر ایسا نقش ہو جائے کہ وہ دنیا چھوڑ بھی جائے توتب بھی جس انقلابی سوچ اور جرأت سے لوگوں کو باطل کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کیا تھا، وہ برقرار رہے۔ اس کردار کے پیچھے اس کی فکر، انقلابی فلسفہ، اعلی اخلاقی جرأت اور اس کا روحانی مقام و مرتبہ پنہاں ہوتا ہے، پھر لوگ ایسے لیڈروں کی صحبت اور ذکر سے تسکین قلب پاتے ہیں، آخر میں صرف اتنا کہوں گا ہم سب کو لیڈر کے چنائو میں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ کیا اس لیڈر میں وہ اوصاف موجود ہیں جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، آگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو پھر ملک میں ہونے والی بگاڑ میں اپنی ذمے داری قبول کریں، آئینہ دیکھیں اور خود سے سوال کریں، کیونکہ آئینہ سچ دکھاتا ہے، ماضی کی طرح کہیں اس بار بھی بے شمار لوگ آپ کے غلط فیصلوں کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں، جس کا آپ کے پاس سوائے ندامت کے کوئی جواب نہ ہو گا، لہٰذا معاشرے کی درستی کے لیے ہر فرد کو اپنا احتساب کرنا ہو گا۔ ہر شخص اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ وہ کتنا ایماندار ہے؟ دوسروں پر لعن طعن کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن اپنے اندر کی غلطیوں کو ڈھونڈنا ذرا مشکل کام ہے۔ اس لیے ہر فرد اپنی اصلاح کی فکر کرے۔ جب معاشرے کی غالب اکثریت درست ہوجائے گی تو حکمران بھی خودبخود ٹھیک ہوجائیں گے، اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔
افراد کے ہاتوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ