لاہور: امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ وزیرخزانہ وعدے کی پاسداری کریں اور قوم کو سودفری بجٹ دیں۔
پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ کم سے کم ماہانہ تنخواہ 40 ہزار روپے کی جائے۔ دنیا میں عوام کو بجٹ سے توقعات ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں خوف اور مایوسی چھائی ہے۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ ہوش سنبھالا تو سنتے آئے ہیں کہ پاکستان مشکل میں ہے۔حقیقت میں غریب مشکل میں ہے۔مراعات یافتہ طبقے کو کوئی فرق نہیں پڑتا جو سالانہ 17 ارب ڈالر ڈکار جاتے ہیں۔ حکومت 18ہزار اور کروڑوں روپیہ ماہانہ کمانے والے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے بجائے آمدن پر ٹیکس لگائے۔ٹیکس کے لیے کم سے آمدن کی شرح 60ہزار روپے ماہانہ کے بجائے ایک لاکھ روپے کی جائے۔
امیر جماعت نے کہا کہ چھوٹے کاشتکاروں کو سہولیات دی جائیں، جاگیرداروں پر ٹیکس عائد کیا جائے، نوجوانوں کے لیے بلاسود مائیکروفنانسنگ، بنکوں کے قرضوں کا رخ اسمال اور میڈیم انڈسٹری کی جانب موڑا جائے۔انڈسٹری کا جی ڈی پی میں شیئر 20فیصد، ٹیکسز میں 72فیصد ہے۔ آئی ٹی کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔بھارت اس سے 60ارب ڈالر ہم صرف 2 ارب کے لگ بھگ کماتے ہیں۔ حکومت آئین پاکستان کی پیروی کرتے ہوئے بیرونی قرضوں پر سود کے بجائے اصل زر واپس کرے۔
انہوں نے کہا کہ رجعت پسندی، فرسودہ طریقوں اور آئی ایم ایف کے احکامات کی بجا آوری کے بجائے پروگریسو اپروچ کے ساتھ ایسا بجٹ تیار کیا جائے جس میں وسائل کا رخ عوامی فلاح و بہبود کی جانب کیا جائے۔ بطور وزیرخزانہ خیبرپختونخوا 6 بجٹ پیش کیے، صوبے کو قرض فری بنایا۔تجربہ کی بنیاد پر یقین سے کہتا ہوں کہ ملک میں وسائل کی کمی نہیں۔گورننس بہتر ہو جائے تو ملک بہت قلیل عرصہ میں ترقی کر جائے گا۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ خلافت راشدہ کے دور کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ عوامی فلاح اور اس کے بعد ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتا تھا۔انتظامی اخراجات کے لیے بہت قلیل رقم مختص کی جاتی تھی۔ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔فلاحی ریاست کے دعوے کرنے والے عوام کی فلاح و بہبود کو مکمل نظرانداز کر دیتے ہیں۔حکمران عوام کی نہیں استعمار کی سنتے ہیں۔ تبدیلی تب آئے گی جب جماعت اسلامی کے ہاتھ میں اختیارات ہوں گے۔
اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل اظہر اقبال حسن، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف اور امیر جماعت اسلامی لاہور ضیا الدین انصاری بھی موجود تھے۔تقریب میں آصف بیگ مرزا، ڈاکٹر شاہدہ وزارت، مرزا منور حسین، اعجاز تنویر، حاجی ریاض الحسن و دیگر ماہرین نے معیشت کی بہتری اور بجٹ سے متعلق تجاویز پیش کیں۔
امیر جماعت نے مزید کہا کہ حکومت جو بجٹ تیار کرتی ہے اس میں تاجروں، کارخانہ مالکان، مزدور، کسان تنظیموں کے بجائے آئی ایم ایف سے مشورے کیے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ویسے ہی غریب کی نمائندگی سرمایہ دار، مزدور کی صنعت کار اور کسان کی جاگیردارکرتا ہے۔ دوسری جانب ملک میں بجٹ پیش ہونے کے بعد بھی ہر دن بجٹ کا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں روزانہ 7 ارب کی کرپشن ہوتی ہے، حکومت اسے کیوں نہیں روکتی؟ وسائل اور مسائل کا نظریہ مغربی ہے۔ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ نے ہر جاندارکے رزق کا بندوبست کیا مگر وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
سراج الحق نے کہا کہ لنگرخانے بنانے اور تندور کھولنے کے نظریات کو ترک کر کے انڈسٹری اور زراعت کی ترقی کی طرف توجہ دینا ہو گی اور سب سے بڑھ کر اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد حاصل کیا جائے، وہ ترسیلات زر کو 40 ارب ڈالر سالانہ تک لے جا سکتے ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے اہل اور ایمان دار قیادت درکار ہے۔