…!!آتش فشاں پھٹا تو

691

سلیکشن اور الیکشن کے کھیل نے ملکی معیشت کی لٹیا ڈبو دی ہے اس سے نجات کسی کو نہیں سوجھ رہی ہے۔ کسی کو بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا ہورہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ دوست احباب ممالک نخرے دکھا رہے ہیں تو آئی ایم ایف والے اکڑے اکڑے پھر رہے ہیں۔ خلق خدا مملکت خداداد بدترین صورت حال سے دوچار ہے۔ حکیم محمد سعید نے تو برسوں قبل ہی ایک انٹرویو میں کہہ ڈالا تھا کہ پاکستان کے سیاست بازوں کو قومی رہنما کہنا ایک بڑی بھول ہے اگر یہ رہنما صادق و امین ہوتے تو پاکستان نہ مفلس ہوتا اور نہ قلاش۔ پھر ضیا الحق کے دور حکمرانی میں صادق و امین کی تلاش خاطر امیدوار ارکان اسمبلی کے لیے آئین میں 62.63 کی شرط شامل کی گئی مگر عمل کا خانہ خالی رہا اور اسمبلی میں جھاڑ جھٹکار جمع ہوگیا ہے کہا گیا بلکہ اعتراف کیا گیا کہ ان چھلنیوں سے چھانا جائے تو صرف جماعت اسلامی ہی بچتی ہے اس کے سر اس معیار پر پورے اُترتے ہیں سو اس پتھر کو بھاری سمجھ کر چوم کر رکھ دیا گیا، اور پھر یہ کچھ ہی ہونا تھا جو ہورہا ہے۔ کھوٹے سکوں کا تجربہ محمد علی جناح قائداعظم کے کام نہ آسکا اور ان کی جان لیوا ثابت ہوا تو ملک اور ملت کو ان لٹیروں سے کب معافی اور نجات ملنی تھی۔ اب مقابلہ لوٹ ہے، ہم نے کھایا ہے تو لگایا بھی ہے جیسا اعتراف جرم کانے حکمران کررہے ہیں یہ کھانے لوٹنے کا یہ کھیل کوئی نیا بھی نہیں ہے۔
حکیم محمد سعید جو گورنر سندھ بھی رہے اور ملک بھر کیا دنیا بھر میں ہمدرد کے طور پر پہچانے بھی گئے اور اس ہمدردی کی قیمت اپنے لہو سے ادا کی۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں 1996ء میں کہا کہ ایک ہزار ارب پتی پاکستان کو لوٹ رہے ہیں اور انقلاب ہی اس کی راہ روک سکتا ہے ربع صدی قبل دیے گئے اس انٹرویو کی بات کو رد کرنے اور انقلاب کی راہ کو روکنے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کرکے ملک کی نصف آبادی خواتین جس کی گواہی بھی نصف ہے جس کو بھول جانے کا عارضہ بھی ہے ان کو چند سکوں سے ہمنوا بنا کر انقلاب کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی گئی۔ جو فی الوقت کے کمال ہے کامیاب بھی ٹھیری، مگر یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ مہنگائی کا پیٹ بھرنے میں کافی نہ ہو رہا ہے تو عوام میں جانے اور انتخاب کرانے کا حوصلہ لٹیرے حکمرانوں میں نہیں ہورہا ہے جب کہ حق حکمرانی عوام کے ووٹوں پر ٹھیرا دیا گیا۔ جمہوریت کے نام پر تو اس سے راہ فرار کیوں؟
امیر جماعت اسلامی سراج الحق تو کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ٹکرائو کے بجائے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخاب ہی اس بحران کا حل ہے۔ مگر انہیں اپنے کیے سامنے آرہے ہیں کہ کس منہ سے جائیں ان کی حکمرانی نے خون چوسا عوام کیا بتائیں حضرت مولانا جبے قبے کے متعلق بھی حکیم محمد سعید فرماتے ہیں کہ انہوں نے سیاست کو شدت کا عنوان دیا اور وہ سیاسی دبائو ڈال ڈال کر کروڑ پتی بن گیا یہ مسیحا کی بات 1996ء کی بات ہے اب وہ جبہ قبہ کا حضرت مولانا ارب پتی بن چکا ہے اُس کی پارٹی کے عبدالغفور حیدری نے 70 ارب روپے دھرنے کی قیمت وصول کرنے کا ان پر ایک انٹرویو میں یہ الزام لگایا۔ اب ملکی دستور موم کی ناک بنادیا گیا ۔ 63-62 کی شق ہی منہ نہیں دیکھ رہی ہے کڑھ رہی ہے عدلیہ تک میں ہر قانون کے دو درجہ ہیں اب تو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ اونٹ بھی نگل جائیں اور عدلیہ کو نظر بھی نہ آئے وہ کور چشمی کا شکار رہے اور دوسرا حق طلب کرے تو کوڑا برسے۔ اس دو عملی، کھلی طرف داری نے پاکستان کو مذاق بنادیا ہے جو لٹیروں کی گردن ناپنے اور پیٹ پھاڑنے کا نعرہ بلند کرتا ہے قوم اس کو عمران خان کی طرح مسیحا سمجھ بیٹھتی ہے۔ حل ہے کہ ایک ریفرنڈم ان لٹیروں کی گردن اڑانے کے لیے کرالیا جائے تو 90 فی صد ووٹر عوام کا ووٹ ہوگا گردن اڑانے اور مال نکلوانے میں تاخیر نہ ہو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر ریفرنڈم وہ کب چاہیں گے جو شریک لوٹ اور دودھ ہیں۔ مگر کب تک خاموش رہے طوفان بستیوں میں اُبل رہا ہے۔ 9 مئی کا سانحہ علامت ہے کہ بات سر سے اوپر ہوگئی ہے آتش فشاں پھٹا تو لاوا بہت کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا ملک کو اب دوا کی نہیں سرجری کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کے دور میں 72 کی لسٹ تھی اور قمر جاوید باجوہ نے پانچ ہزار کی لسٹ تیار کرکے ڈرانے اور دھمکانے کے علاوہ کوئی کام نہ لیا۔