اے ابن آدم! آپ کے تو علم میں ہے کہ جس طرح سے ملک کے ہر شعبے میں کرپشن ایک ناسور بن چکا ہے بالکل اس طرح صحافت میں بھی زرد صحافت کا عنصر اپنے عروج پر ہے، لفافہ لے کر شان میں قصیدے لکھیں جاتے ہیں، پیپلز پارٹی برسوں سے کراچی کو تباہ کرنے میں لگی ہوئی ہے، مردم شماری کا ہی حال دیکھ لیں، 3 کروڑ کی کراچی کی آبادی کو آدھا کردیا ہے، کیا کراچی والے کوئی بھیڑ بکریاں ہیں یا سودا سلف کا سامان ہیں جن کا بھائو تائو کرکے مردم شماری میں کچھ نمبر کم یا زیادہ کرلو گے۔ جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جو ہر عوامی مسئلے کے حل کے لیے میدان عمل میں اُترتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کے مردم شماری کے خلاف ایک بڑا عوامی مارچ کیا۔ گورنر صاحب آپ صوبے کی ایک طاقتور علامت ہیں آپ کراچی کی مردم شماری پر اپنا آئینی کردار کیوں ادا نہیں کرتے۔ اس وقت کراچی کے مسائل آپ کے سامنے ہیں آپ کے بیانات بھی مسائل کے حوالے سے موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو درد تو ہے مگر پیپلز پارٹی کے آگے آپ بے بس کیوں نظر آتے ہیں۔ آپ نے رمضان کے بابرکت مہینے میں گورنر ہائوس کے دروازے عام آدمی کے لیے کھول دیے، عید ملن کا بھی پروگرام کیا،آپ راتوں کو علاقوں میں نکل پڑے، آپ کو سحری کی دعوت لوگوں نے دی تھی، آپ حیدری مارکیٹ کا بھی دورہ کرکے گئے۔ گلزار ہجری کے علاقے میں حاجی صاحب جو اس علاقے کے سب سے بڑے پکوان سینٹر پر آپ نے عوام سے بھرپور خطاب کیا۔ علاقے کے سماجی رہنما عقیل خان بھی آپ کی پریس کانفرنس میں حاجی صاحب کے ہمراہ موجود تھے، گیس کی لوڈشیڈنگ جو کراچی کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی تھی یہ کارنامہ بھی پیپلز پارٹی کا ہے، آپ نے اعلان کیا کہ جن کو گیس نہیں مل رہی ہے وہ بل ادا نہ کریں گورنر ہائوس میں جمع کرادیں۔ ابھی لوگ آپ کے اعلان کو سن ہی رہے تھے کہ حکومت نے خاموشی سے سوئی گیس کے میٹر کا رینٹ 40 روپے سے بڑھا کر 500 روپے کردیا جس پر آپ نے تو کیا نہ ایم کیو ایم نے نہ پیپلز پارٹی نے کوئی آواز اٹھائی اب جس غریب شخص کا بل ہی 300 یا 400 آتا تھا اس کو گیس کی قیمت سے زیادہ میٹر رینٹ ادا کرنا ہوگا اور اگر آپ اس کو پاکستان کے سوئی گیس کے کروڑوں صارفین کے ساتھ ضرب دیں تو یہ کھربوں کی رقم بن جائے گی۔ میں تو چیف جسٹس آف پاکستان سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ عوام کے ساتھ انصاف ہے، مجھے بتایا جائے کہ میں کوئی چیز خریدنے جاتا ہوں تو کیا ترازو کے پیسے دیتا ہوں کیوں دوں وہ ایک چیز کلو کے حساب سے فروخت کررہا ہے تو تول کر تو دے گا۔ پٹرول پمپ پر بھی میٹر ہوتا ہے تو کیا وہ بھی عوام سے میٹر کے چارجز لے گا۔ یہ دو محکمے ایسے ہیں ایک بجلی کا اور ایک گیس کا جو ہر ماہ صارفین سے میٹر رینٹ لیتے ہیں جبکہ دونوں ادارے اس کی قیمت بل میں وصول کرچکے ہوتے ہیں۔ چیف صاحب اگر 50 روپے سے بھی ایک سال کا میٹر رینٹ لگائیں تو ہر صارف سال کے 600 روپے ادا کرتا ہے۔ کراچی میں گیس کے میٹر لگے ہوئے 30 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔ ان 30 سال میں اگر 50 روپے کے حساب سے کرایہ لگایا جائے تو صارف اب تک 18000 ہزار روپے ادا کرچکا ہے۔
شہر میں گٹکا مافیا کے اوپر پولیس نے آئی جی کی ہدایت پر بھرپور کارروائی کررکھی ہے۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ میری اطلاع کے مطابق صرف نیو کراچی کے تھانوں میں 20 لاکھ روپے ہفتہ آتا تھا۔ عید کے موقع پر نزلہ عوام اور کاروباری لوگوں پر گرا، پان چھالیہ فروخت کرنے والے چھوٹے دکانداروں پر کریک ڈائون کردیا، ہر دکان پر 10 کلو تو چھالیہ ہوتی ہے لہٰذا ہر دکاندار سے بھاری رشوت لی گئی جبکہ سب جانتے ہیں کہ گٹکا بنانے والا من دو من کا گٹکا بناتا ہے مگر عید بھی تو پولیس کو کرنی تھی۔ کراچی میں جرائم کس حد تک بڑھ چکے ہیں آپ کے عوامی بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہیں مگر اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ پولیس کرائم کنٹرول کرنے میں ناکام اس کی وجہ اُس کے اپنے اندر موجود کالی بھیڑیں ہیں۔ دوسری اہم بات جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے وہ ہے مقامی پولیس، آپ خود تھانوں کا دورہ کریں آپ کو 90 فی صد نفری کراچی سے باہر کی نظر آئے گی، محکمہ پولیس خراب نہیں اچھے افسران بھی موجود ہیں بس اگر علاقے کا ایس ایچ او ایماندار آجائے تو علاقوں سے واردات کم ہوسکتی ہیں، ایک توجہ طلب مسئلہ صحافی برادری کا بھی سامنے آیا میں مانتا ہوں کہ ہمارے شہر میں جعلی صحافی موجود ہیں مگر جو پرانے اور نامور صحافی ہیں پولیس کا رویہ اُن کے ساتھ بھی اچھا نہیں ہے۔
آخر میں درخواست کے بعد اجازت چاہوں گا۔ نیو کراچی 5 نمبر سے لے کر اللہ والی جانے والی روڈ کا ایک دورہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہاں کی عوام کس اذیت سے گزر رہے ہیں۔ 5 نمبر سے سندھی ہوٹل تک گٹر اُبل رہے ہیں، تمام روڈ دھنس چکی ہیں مگر سندھ گورنمنٹ نے کوئی توجہ نہیں دی۔ تمام میت گاڑیاں جو نیوکراچی قبرستان جاتی ہیں اسی روڈ سے گزر کر جاتی ہیں، دل روتا ہے گورنر صاحب آپ فوری طور پر اس اہم مسئلے کو حل کرکے نیوکراچی کی عوام کی دعائیں لیں، عوام سندھ حکومت سے تنگ آچکے ہیں۔