خدا کرے کہ خواتین سیاسی قیدیوں کے حوالے سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ غلط ہوں مگر پاکستان تحریک انصاف کی سینئر رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری اور ملیکہ بخاری کی پریس کانفرنس کے دوران ان کے چہرے کے تاثرات اور آواز بہت کچھ بتارہی تھی اس نے کچھ پرانے زخم تازہ کردیے اور مجھے نہ جانے کیوں سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی راحیلہ ٹوانہ اور پی پی پی کی رہنما اور صوبائی وزیر شہلا رضا کے ساتھ ہونے والا سلوک یاد آ گیا جو کراچی کے سی آئی اے سینٹر میں ہوا تھا۔
راحیلہ جو اب تقریباً سیاست کو خیرباد کہہ چکی ہیں کو رہائی کے بعد کئی ماہ ماہر نفسیات ڈاکٹر ہارون کے جناح اسپتال وارڈ میں گزارنا پڑے تھے۔ ہماری جیلوں اور عقوبت خانوں کی ان گنت ’گمشدہ کہانیاں‘ ہیں۔ بائیں بازو کے کمیونسٹ لوگوں کے لیے تو ’جیل‘ اور ہتھکڑی‘ عادتوں میں سے ہے، حسن ناصر سے لے کر نظیر عباسی تک مگر خود پی پی پی اور ایم کیو ایم کے کارکنوں اور اہل خانہ کی داستانیں بھی ناقابل بیان ہیں اور اسی لیے جب ان کے دور میں ایسی خبریں آتی ہیں تو یہ امر باعث تشویش اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا متقاضی ہے۔ جسمانی، جنسی اور ذہنی تشدد سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ بات اتنی بھی پرانی نہیں جب جام صادق علی وزیر اعلیٰ سندھ تھے، غلام اسحاق خان صدر تھے اور میاں نواز شریف وزیر اعظم۔ اخبارات و رسائل میں سی آئی سینٹر کے حوالے سے مسلسل خبریں آ رہی تھیں کہ وینا حیات کے ساتھ مبینہ زیادتی نے ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ بات اس حد تک آگے چلی گئی کہ وزیر اعظم نے جنرل (ر) شفیق الرحمان جو انسپیکشن ٹیم کے سربراہ تھے انہیں کراچی تحقیقات کے لیے بھیجا مگر سندھ حکومت نے انہیں ہوٹل تک محدود کردیا اور سی آئی اے سینٹر جانے کی اجازت نہ دی، بہرحال انہوں نے کئی متاثرین کے انٹرویو کیے، جن میں کچھ ائرہوسٹس بھی شامل تھیں، بہت سے کاروباری لوگوں نے، جن کو اغوا کرکے سینٹر لایا جاتا تھا، ظلم کی داستانیں سنائیں۔ وہ مفصل رپورٹ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ نتیجہ صرف اتنا ہوا کہ ڈی آئی جی، سی آئی اے سمیع اللہ مروت کو نوکری سے برطرف کردیا گیا۔
چند ماہ پہلے جسٹس اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل میں بچوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں تشویشناک واقعات سنائے۔ ’’میں نے ان بچوں سے ملاقات کی جو مختلف الزامات میں جیل میں تھے اور پوچھا کہ تم لوگوں کو کیسے رکھا جاتا ہے مگر کوئی بچہ کچھ نہ بولا۔ میں نے دوبارہ سوال کیا اور انہیں یقین دلایا کہ میرے جانے کے بعد تمہارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا جس پر ایک لڑکا کھڑا ہوا اور اس کا ایک جملہ وہاں ہونے والے سلوک کا نچوڑ تھا۔ اس نے کہا سر ’ہم سے نہ پوچھیں ہماری بہت تذلیل ہوگی ہمیں بہت ذلیل کیا جاتا ہے‘۔ اس کا یہ کہنا تھا کے کئی بچے بس پھٹ پڑے۔ یقین نہیں آتا کہ ہم کس حد تک گرچکے ہیں‘‘۔
کئی سال پہلے حیدرآباد کی سینٹرل جیل سے کوئی 60 کے قریب کم عمر بچے خطرناک ملزمان کی بیرکوں سے برآمد کیے گئے جہاں ان کو جنسی مقاصد کے لیے پیسوں کے عوض رکھا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے خواتین سیاسی کارکنوں کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں کی زبانوں سے جو الفاظ ادا کیے جارہے ہیں وہ بذات خود تشویش ناک ہیں۔ وہ شاید اس نزاکت کو سمجھ ہی نہیں پارہے۔ ہماری پوری پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کا کلچر ہی ایسا رہا ہے جہاں انسان کی عزت نفس سے کھیلا جاتا ہے۔ کسی کو بے لباس کرکے اس کی تصاویر اور ویڈیو بنانا، ماں کے سامنے بیٹی کو لاکرکھڑا کردینا ہی ایک پیغام ہوتا ہے۔ شہباز گل ہوں، اعظم سواتی ہوں یا ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن ہوں، ہم اس بہیمانہ نظام کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
مڈل کلاس اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں تو ہم ان کو مغرب زدہ کہہ کر ان کے ساتھ بدسلوکی کو اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں۔ بیگم بھٹو کی تصاویر 1988 کے جلسوں میں جہازوں سے گرائی جاتی ہیں کہ دیکھو یہ امریکی صدر کے ساتھ ڈانس کررہی ہیں۔ پھر مریم نواز کے ہوٹل کے کمرے میں چھاپا رات گئے مارنا بھی اسی ذہینت کی عکاسی کرتا ہے۔ کردار بدلتے ہیں کہانی نہیں۔ مسئلہ کل اور آج کا نہیں، مرد اور عورت کا بھی نہیں قانون کی حکمرانی کا ہے، حکمرانوں کے قانون کا نہیں۔ ہمارے جید سیاستدانوں میں ایسے بھی ہیں جن کی زبان سے خواتین کے حوالے سے ایسے ایسے الفاظ سنے ہیں کہ یہاں بیان بھی نہیں کیا جاسکتا اور وہ جلسوں میں ادا کرتے شرماتے بھی نہیں۔ ہمارا سیاسی بگاڑ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا ہم کیا کہہ رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور خواتین کی این جی اوز کو ان خبروں کی تحقیقات کرنی چاہئیں۔ عمران خان ان تنظیموں سے مطالبات کرتے ہوئے خود اپنے طرز عمل اور خیالات پر بھی تو توجہ دیں۔ وہ بڑے سیاسی رہنما ہیں، چھوٹی باتیں اچھی نہیں لگتیں جو ماضی میں وہ کہتے رہے ہیں۔ سیاسی بگاڑ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہم نے اس کو دشمنی میں بدل دیا ہے اور سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ’پروجیکٹ عمران خان‘ کا نام دینے والے ہمارے اصل حکمراں آج کل اس پروجیکٹ کو بند کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس میں کام کرنے والے ملازمین (کارکن اور لیڈروں) کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کر گھر بھیجا جارہا ہے جو اپنی ملازمت (سیاست) جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے کراچی تاخیبر جیلیں ہی جیلیں ہیں اور گمشدہ کہانیاں۔
حال ہی میں خود عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ یہ پروجیکٹ خود چلانا چاہتے ہیں اور ’مالکان‘ سے درخواست کی ہے کہ وہ جتنے بھی تحریک انصاف کے لوگوں کو لے جانا چاہتے ہیں لے جائیں۔ خان صاحب کو بھی ’گولڈن ہینڈ شیک‘ آفر کی جانے والی ہے اگر وہ اسے قبول کرلیتے ہیں تو الیکشن وقت پر بھی ہوجائیں گے اور نتائج بھی مثبت آہی جائیں گے۔ نہیں مانے تو ان کی پارٹی کے لیے سیاسی پلٹن میدان‘ کھلا ہے پریس کانفرنس اور اعلانات کا سلسلہ جاری ہے کوئی سیاست چھوڑ رہا ہے کوئی پارٹی۔ عمران کی سیاسی غلطیوں کی لمبی فہرست ہے کس طرح انہوں نے اپنی پارٹی اور اپنے آپ کو مشکل میں ڈالا، ان کی سب سے بڑی کمزوری ان کا اپنا رویہ اور رعونت ہے۔ جن پر وہ اعتماد کرتے تھے جوان کو اپنی ’ریڈ لائن‘ کہتے تھے وہ سائیڈ لائن سے نکل گئے ہیں مگر اس سب کے باوجود ان کا مضبوط پوائنٹ الیکشن ہے جو دوسروں کا ویک پوائنٹ ہے۔ اس لحاظ سے ان کو اب بھی سیاسی برتری حاصل ہے۔ یہی وہ بیانیہ ہے جس کی وجہ سے زور زبردستی کرلیں تو الگ بات ورنہ ’پروجیکٹ عمران‘،مشکل سے بند ہوگا۔ (بشکریہ: روزنامہ جنگ کراچی)