ایک خلیفہ وقت کا ارشاد ہے کہ اگر نہر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کی باز پرس مجھ سے ہوگی۔ یہ ہے اسلامی شعار اور خدا خوفی کا یہ عالم کہ ایک سربراہ مملکت ایک جانور کے بھوک مرنے پر جواب دہی سے خوف زدہ ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں جانور نہیں انسان بھوک سے مر رہے ہیں بلکہ خودکشیاں کررہے ہیں۔ غربت اور بیروزگاری کا یہ عالم ہے لوگ اپنے بچوں کو بھی فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اب جو طبقہ ملک پر قابض ہے ایک صاحب تو لوٹ مار میں بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکے ہیں اور ان کی کرپشن ان کے نصاب میں شامل ہوچکی ہے اور دوسرے استاد بڑے غلام علی بیماری کا بہانہ بنا کر لندن میں بیٹھے چین کی بانسری بجا رہے ہیں جبکہ ملک پر چھوٹے غلام علی وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں مگر خوف زدہ ہیں اور واپسی سے گھبرا رہے ہیں یا پھر کسی اچھے معالج کے منتظر ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ جہاز میں لیٹ کر گئے تھے ایسے ہی لیٹ کر واپس آنا چاہتے ہیں عرصہ دراز سے بیرون ملک زیر علاج ہیں مگر نظریں ملکی سیاست پر گاڑھی ہوئی ہیں پھر آزمائش کے طور پر اپنے مفرور سمدھی کو وزیر خزانہ بنا کر پاکستان روانہ کردیا جنہوں نے آتے ہی ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کیا اور اپنے چار سال مفروری کی قیمت 70 کروڑ روپے اپنے اکائونٹ میں منتقل کرالیے اور اب امرا، شرفا اور 87 رکنی کابینہ (ملکی تاریخ کی طویل ترین کابینہ) کی بھاری بھرکم تنخواہوں اور مراعات (عیش و عشرت) کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے آئی ایم ایف سے منت سماجت میں مصروف ہیں۔
ہمیں موجودہ حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ پر کوئی اعتراض نہیں کہ ملک پر جو بھی حاکم آتا ہے اس کا وتیرہ یہی ہوتا ہے۔ افسوس اور شرمندگی اس بات کی ہے کہ ان کی سربراہی ایک ممتاز عالم دین فرمارہے ہیں۔ حکومت وقت نے بھی ان کی سربراہی کے عوض پہلے ایک صاحبزادے کو وفاقی وزارت سے نواز دیا جن کے ہوتے ہوئے سرکاری حج 12 لاکھ روپے میں ہوگیا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار سعودی حکومت کو حج کا کوٹا واپس کرنا پڑا۔ ایک صاحبزادے کو مرکز میں وزارت مل گئی تو دوسرے صاحبزادے سینیٹر مقرر ہوچکے ہیں اور تیسرے صاحبزادے صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔ محترم کی سالی صاحبہ بھی رکن قومی اسمبلی کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن رہ چکی ہیں اور حال ہی میں محترم کی مخالفین کے خلاف شعلہ بیانی پر ان کے سمدھی کو گورنر کے پی کے مقرر کرایا گیا جن کے صاحبزادے پہلے ہی میئر پشاور منتخب ہوچکے ہیں۔
ہم جذبات میں تھوڑا آگے نکل گئے تھے واپس آتے ہیں اپنے اصلی موضوع یعنی بھوک و افلاس کی طرف جس کو مخیر حضرات اور فلاحی اداروں نے محسوس کیا اور لوگوں کو بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بچانے کے لیے ’’شاہراہوں پر دسترخوان‘‘ لگانے کا اہتمام کیا۔ غالباً اس کی ابتدا سیلانی ویلفیئر نے کی تھی پھر چھیپا نے دسترخوان لگائے کیونکہ یہ دسترخوان سڑکوں کی فٹ پاتھوں پر لگائے جاتے تھے تو عوام نے اس پر اعتراض کیا کہ اس طرح عزت نفس مجروح ہوتی ہے تو پھر کرسی میزوں پر دسترخوان سجانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ عام طور پر ایسے دسترخوان اوور ہیڈبرج کے نیچے لگائے جانے لگے اور جے ڈی سی کے ظفر عباس نے تو ’’شاہی دسترخوان‘‘ سجایا اور عوام کو ہرن اور شترمرغ کے گوشت کے مزے چکھا دیے۔ اس کے بعد الخدمت اور حسینی دسترخوان بھی لگائے جانے لگے مگر دیکھنے میں یہ آیا کہ جہاں ان دسترخوانوں کا مقصد لوگوں کی بھوک مٹانا تھا وہی مخصوص افراد نے مفت کے کھانے کو اپنا وتیرہ بنالیا تھا۔ راقم نے تھوڑا سا وقت چھیپا میں گزارا تو یہ چیز دیکھنے میں آئی کہ ہر وقت ہر روز مخصوص چہرے ہی روٹی توڑ رہے ہوتے تھے، دوسری ان دسترخوانوں میں مقامی افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ پھر سیلانی نے اس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اسپتالوں اور مضافاتی علاقوں تک بڑھایا۔ اسپتال کی حد تک درست ہے مگر مضفاتی دسترخوانوں پر چرسی، موالی اور ہیروئنچیوں نے بھی ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جب مفت میں دو وقت کا کھانا ملے تو کون جائے کمانے کو ملک کے دور دراز علاقوں سے بھیک مانگنے کی غرض سے آنے والے افراد کی تو لاٹری نکل آئی اور انہوں نے اپنے خاندانوں منتقل کرنا شروع کردیا، جن کے بچے اور عورتوں نے سگنل اور چوراہوں پر پیسے بٹورے کھانا مفت کا کھایا اور کسی اوور ہیڈ برج کے نیچے سو گئے اور ان کے بڑے بڑے ہاتھوں کھیل کھیل رہے ہیں۔ ڈکیتی، لوٹ مار، چھینا جھپٹی میں ان کو سرپرستی حاصل ہے۔ اوور ہیڈ برج ان کی پناہ گاہیں بن چکی ہیں، اس کے نیچے شب بھر کیا ہوتا ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔ آپ خود جا کر جائزہ لیں اوور ہیڈ برج کے ایک سائڈ پر دسترخوان ہوگا اور دوسری طرف یہ مفلسی کے روپ میں… ہم نے سوشل میڈیا پر یہ منظر بھی دیکھا کہ اوور ہیڈ برج کے نیچے رسی بندھی ہوئی ہے اور اس پر کپڑے لٹک رہے ہیں۔ ہم ان دسترخوانوں کے خلاف نہیں مگر اہل کراچی کو آنے والے خطرات سے بچانے کے لیے اب راستہ تبدیل کرنا ہوگا۔ ورنہ آنے والے وقت میں رات گئے سفر دشوار بھی ہوسکتا ہے۔ خدمت خلق کے جذبے کے تسلسل کے لیے ہم یہاں دوتجاویز پیش کرتے ہیں۔ اول کراچی کے ایسے علاقے جہاں پانی کا فقدان ہے اور لوگ بورنگ کا پانی پینے پر مجبور ہیں اور پانی کی کمپنیاں کھارے پانی کو میٹھا کرکے فلٹر اور منزل کے نام پر پیسے بٹور رہی ہیں۔ وہاں ’’فلٹر پلانٹ‘‘ نصب کیے جائیں۔
دوم سرکاری اسپتالوں کے باہر ’’میڈیکل اسٹور‘‘ قائم کیے جائیں کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج تو ہوتا ہے مگر دوائیں باہر سے ہی خریدنی پڑتی ہیں۔ ان میڈیکل اسٹورز پر جو دوائیں فراہم کی جائیں وہ نصف قیمت پر دی جائیں کہ فری دوائیں فروخت ہونا شروع ہوجائیں گی۔ آخر میں ہم کراچی کی انتظامیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ کراچی کے تمام اوور ہیڈ برج کو شب خوابی اور رہائشی افراد سے خالی کراکے صفائی ستھرائی کا انتظام کیا جائے۔