پی ٹی آئی جس طرح پاکستانی سیاست کے افق پر خوب چھائی، گرجی، چمکی، برسی، اب اسی طرح عروج کے بعد زوال پزیر بھی ہے کل تک جو لوگ پی ٹی آئی کا حصہ ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے، عمران خان پر اپنی جان نچھاور کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ اسے اپنا غرور کہتے تھے اور کہتے تھے کہ اب چاہے جو مرضی ہو ہم تحریک انصاف سے الگ نہیں ہو سکتے۔ یہ پی ٹی آئی کے گلدان میں جمع ہونے والے لال، پیلے، ہرے، نیلے پھول مختلف سیاسی جماعتوں سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ 1992ء کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو ایک خاص عزت سے نوازا تھا۔ یہ شخص نوجوانوں کا آئیڈیل بن گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب اس نے اپنی والدہ کے نام پر کینسر اسپتال کا منصوبہ شروع کیا تو پاکستانیوں نے اس کے سامنے دولت کے ڈھیر لگا دیے۔ ملک یا ملک کے باہر جہاں کہیں بھی اسپتال کے لیے عطیات لینے کے لیے گیا پاکستانیوں نے دل کھول کر مدد کی۔ اس میں اسکولوں کے بچے کالجوں، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات بھی پیش پیش تھے۔ لوگوں نے اتنی زیادہ مدد کسی کی نہ اس سے پہلے کسی منصوبے میں کی تھی نہ اس کے بعد۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کی اپنی ذات تھی کیونکہ لوگ عمران خان پر اعتماد کرتے تھے۔ اس سے محبت کرتے تھے اور اسے عزت دیتے تھے۔ اچھا بھلا مشہور اور عزت دار آدمی تھا پھر پتا نہیں اسے کیا سوجھا کہ پاکستان کی سیاست میں قدم رکھ دیا۔ یہ خود آیا یا لایا گیا اس بارے میں کوئی مستند معلومات نہیں بہرحال یہ تبدیلی کا نعرہ لے کر میدان میں اترا۔ کرکٹ کی وجہ سے یہ نوجوان طبقہ کا پہلے ہی سے پسندیدہ تھا اس لیے ملک کے نوجوانوں کا قافلہ اس کے پیچھے چل دیا۔ تحریک انصاف پاکستان کے نام پر بنائی گئی اس جماعت نے جلد ہی مقبولیت پکڑ لی۔ پہلی بار کے انتخابات میں اس جماعت نے کافی اچھی کامیابی حاصل کی۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اس جماعت نے ملک کا اقتدار حاصل کیا۔ سونامی کے نعرے کے ساتھ یہ پورے ملک پر چھائے۔ بطور وزیراعظم عمران خان کی پہلی تقریر نے پوری قوم کے دل موہ لیے حتیٰ کہ میرے جیسے کان کے کچے لوگ تو دلوں میں یہ امید لگا کر بیٹھ گئے کہ پاکستان اب سپرپاور بنے گا۔ روپیہ اپنی قدر میں ڈالر سے نہ بھی بڑھ سکا تو قریب قریب ضرور ہو جائے گا۔ پاکستان معیشت کے میدان میں اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ جاپان اور روس کے لوگ بھی روزگار کے لیے پاکستان کا رخ کریں گے۔لیکن یہ بھول گئے کہ حکومت بے شک نئی ہے مگر پارٹی ارکان تقریباً سارے ہی پرانے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے ہاتھوں سے پہلے ہی ملک تنزلی کا شکار ہو چکا ہے۔
کرسی اگر عمران خان کو پیاری ہے تو اپوزیشن اقتدار کی کرسی کی اس سے بھی زیادہ شوقین تھی۔ انہوں نے عمران خان کے اقتدار کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی تحریک عدم اعتماد چلا دی اور عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے اتار پھینک دیا، تحریک انصاف کو اقتدار سے علٰیحدہ کر دیا گیا لیکن پارٹی یونٹ قائم رہا۔ اب نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کے اراکین پارٹی سے ایسے الگ ہو رہے ہیں جیسے خزاں زدہ درخت کے زرد، سوکھے پتے جھڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور آخر میں ٹنڈ منڈ درخت رہ جاتا ہے یہی حال اس وقت عمران خان کا ہے۔ سارے ساتھی ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑ رہے ہیں جن کے چھوڑ جانے کا عمران خان نے شاید کبھی گمان بھی نہ کیا ہو، جن میں شیریں مزاری، فردوس عاشق اعوان، خسرو بختیار، علی زیدی، مراد راس، سینیٹر سیف اللہ نیازی، رابعہ اظہر، ابرار الحق، فواد چودھری اور دیگر بھی شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر پریس کانفرنس کرکے عمران خان کے خلاف خوب بولے۔ مجھے اس بات پر حیرانی ہے کہ ان بیچاروں کو عمران خان کے یہ عیب اب ہی نظر کیوں آئے بھئی پہلے کیوں نہیں آئے جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ’’یہ جبری طلاقیں دلوائی جارہی ہیں۔ میری پارٹی کے اراکین کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘‘۔ اب یہ جبری طلاقیں ہیں یا بخوشی خلع، یہ سیاست کے گھن چکر والے ٹیڑھے میڑھے راستوں اور پیاز کی پرتوں کی طرح خفیہ در خفیہ معاملات کی ہمیں کیا سمجھ کیونکہ یہاں جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا اور جو نظر آرہا ہوتا ہے وہ اصل نہیں ہوتا اس لیے اس سارے معاملے میں خاموشی ہی بہتر ہے۔
تجزیاتی نقطہ ٔ نظر میں عمران خان نے جو دو بڑی سیاسی غلطیاں کی ہیں وہ یہ کہ جب عمران خان کو سیاسی میدان میں پزیرائی ملنا شروع ہوئی تو لوگ دوسری پارٹیوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر عمران خان کے قافلے میں شامل ہونے لگے۔ یہ دوسری پارٹیوں سے ہجرت کرنے والے لوگ اپنے اپنے دور اقتدار میں کرپشن سے ہاتھ آلودہ کر چکے تھے۔ یہ چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے مطلبی لوگ تھے اسی لیے تو آج عمران خان کے زوال کے وقت سب دوڑ رہے ہیں اور عنقریب یہ لوگ کسی دوسری مقبولیت والی پارٹی میں شامل ہو جائیں گے، ان کے ساتھ عہد وفا کا اعلان کرتے نظر آئیں گے۔ اپنی پارٹی ٹکٹ دینے کے لیے عمران خان کو صاف ستھرے، مخلص لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جو اس کی پارٹی کے خیر خواہ بھی ہوتے اور ملک کے بھی۔ مشکل وقت میں چاہے جتنا مرضی دباؤ کا شکار ہوتے لیکن اسے چھوڑ کر نہ جاتے۔ دوسری غلطی، اپنی قوم کو مایوس کیا۔ عمران خان واقعی لوگوں کے دلوں میں بستا تھا۔ جب عمران خان سیاست میں آیا تو عوام نے جو امیدیں اس سے وابستہ کرلیں وہ شاید آج تک پی ڈی ایم کے کسی بھی لیڈر سے وابستہ نہیں کیں۔ قدرت نے اسے بہترین موقع دیا تھا یہ اپنے اقتدار کے دور میں پاکستان اور عوام کے لیے کچھ خاص کر کے لوگوں کے دلوں میں امر ہو سکتا تھا۔ اس کی تو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی صرف بات نے لوگوں کو متاثر کرلیا تھا اگر اقدامات کر لیتا تو لوگ آج اس کے صدقے واری جا رہے ہوتے۔ کاش! عمران خان نے اپنے قریبی لوگوں کی کرپشن پر ان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہوتا تو تاریخ کی کتابوں میں یہ ایمانداری کا استعارہ بن جاتا، آنے والا وقت اسے عظیم لیڈر کے طور پر یاد کرتا لیکن اس نے رب کا دیا ہوا موقع ضائع کر کے لوگوں کے دلوں سے اپنی محبت اور عزت سب کچھ ضائع کردیا۔