ملک میں سیاسی رسہ کشی مہنگائی اور معاشی بدحالی کے پیش نظر ہر شہری پریشان ہے۔ صنعتی ترقی سے لیکر تبدیلی تک کا نعرہ بھی تباہی وبربادی ثابت ہوا ہے۔ عوام کو تحریک انصاف کی مقبولیت سے یہ امید بندھ چلی تھی کہ چلو اب دو پارٹی سسٹم تو کم از کم ختم ہوگا اور عوام کے ابتر حالات میں کچھ تو بہتری آئے گی مگر بدقسمتی سے تبدیلی سرکار نے چار سال چور چور کا شور مچانے میں گزار دیے۔ جب پی ٹی آئی حکومت کو فارغ کرکے میاں شہبازشریف کی قیادت میں تیرہ جماعتی پی ڈی ایم حکومت قائم کی گئی تو اس نے باقی رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ اس وقت آٹا، دال، چینی سمیت روزمرہ کی اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کی ہدایات وکڑی شرائط پر پٹرول بجلی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے سے ایک عام آدمی کا زندہ رہنا بھی مشکل بنادیا گیا ہے۔ مہنگے ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان سری لنکا سے بھی آگے چلا گیا ہے۔ وزراء کا ایک طرف ملک میں گندم کی بمپر فصل کی پیداوار کے دعوے ہیں تو دوسری جانب زندگی کی بنیادی ضرورت آٹا آج بھی 130 سے 150 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان پر وزیراعظم شہباز شریف کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ ’’مہنگائی اتنی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ منہ چھپاکر کہاں جائوں؟‘‘ (جسارت 27مئی) پہلے موصوف ہی نے کے پی کے میں جلسہ عام کے اندر ہزاروں لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہوکر کہا تھا کہ ’’میں اپنے کپڑے بیچ کر بھی عوام کے لیے آٹا سستا کروں گا‘‘ مگر آج بے بسی کا یہ عالم ہے کہ منہ چھپانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ لوڈشیڈنگ ختم نہ کروں تو نام بدل دینا، ان کے دعوے کو عرصہ بیت گیا، لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی نے مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ نکالے، انہیں حکومت میں آئے ایک سال سے زائد گزر گیا، اس عرصے میں بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 100 فی صد اضافہ ہوا، مگر اب یہ مہنگائی کا نام تک نہیں لیتے۔ موجودہ شریف حکومت نے تو قرضے بڑھانے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ صرف ایک سال میں ملکی قرضوں میں 14 ہزار 109 ارب 80کروڑ روپے کا اضافہ ہو گیا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2022ء سے مارچ 2023ء کے عرصے میں پاکستان کے قرض میں 14 ہزار 109 ارب 80 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یعنی گزشتہ ایک سال کے دوران قرضوں کے حجم میں اوسطاً ماہانہ 1200 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران قرضوں کے حجم میں اضافے کی ایک بڑی وجہ پاکستانی روپے کی بے قدری ہے۔ صرف پاکستانی روپے کی بے قدری کی وجہ سے قرضوں کے حجم میں ہزاروں ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ حکومت کی جانب سے خسارے کو پورا کرنے کے لیے بھی ہزاروں ارب روپے کا قرضہ لیا گیا۔ پی ڈی ایم قیادت اپنے ایک سالہ دور حکومت کے دوران صرف کرپشن سے حاصل دولت کو تحفظ اور اپنے مقدمات ختم کرنے کے بجائے مہنگائی کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کے لیے بھی کچھ اقدامات کرتی تو آج قرضوں کی بھیک سے لیکر ملک معاشی طور سنگین صورتحال سے دوچار نہ ہوتا ہمارے پڑوسی برادر اسلامی ملک کی صورتحال ہی کو دیکھ لیں۔ افغانستان جو ہمیشہ بیرونی جارحیت کا شکار رہا مگر ایک رپورٹ کے مطابق وہ ایشیا کا سستا ترین ملک ہے اور وہاں پر مثالی امن قائم ہے۔ وہاں ڈالر ریٹ 87 افغانی جبکہ پاکستان میں 310 روپے فی ڈالر پہنچ چکا ہے جب پاکستان بنا تھا تو ایک ڈالر ایک روپے کا تھا جو بڑھ کر یہاں تک پہنچ چکا ہے مطلب یہ کہ قومی معیشت اور کرنسی کا بنگلا دیش، نیپال اور بھوٹان سے بھی برا حال ہے جبکہ دوسری جانب ایران ہے جو امریکا کی سازشوں اور مختلف پابندیوں کے باوجود مستحکم اور مسلسل ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔
ملک کی اس معاشی وسیاسی صورتحال کے پیش نظر ملکی وغیر ملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔ الحمدللہ! وطن عزیز تیل گیس کوئلہ سمیت قدرتی دولت سے مالا مال ہے اصل مسئلہ مخلص ودیانتدار قیادت کے فقدان کا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو اس نہج پر پہنچانے میں کرپشن وکرپٹ قیادت کا بڑا ہاتھ ہے جس نے ملک کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ان ظالموں نے کوئی معمولی اور جائز کام بھی کرپشن کے بغیر ناممکن بنا دیا ہے۔ یوٹیلٹی بلز سے لیکر اشیائے خورو نوش کی چیزوں تک تمام ٹیکس دینے کے باوجود عوام صحت تعلیم اور صافی پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے۔ مراعات یافتہ بڑے لوگ تو اپنا اور اپنے خاندان کا بیرون ملک علاج اور تعلیم کا بندوبست کردیتے ہیں اور غریب آدمی بیچارا ہرجگہ دھکے کھاتا رہتا ہے ان کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے۔ اللہ نہ کرے ملک پرکوئی مشکل وقت آجائے بڑے لوگ تو ویسے ہی باہر چلے جائیں گے جنہوں نے پہلے ہی دہری شہریت حاصل کرنے کے ساتھ وہاں پر بنگلے بینک بیلنس اور سرمایہ کاری کررکھی ہے مگر غریب آدمی جس نے سب کچھ اپنے ملک ودھرتی ہی کو سمجھ رکھا ہے وہ یہاں پر ہی رہ کر اپنی وملک کی تقدیر بدلنے کی تگ دو کرے گا۔ عوام مہنگائی کا رونا رو رہے تھے اور ابھی بجٹ کی آمد آمد ہے، شنید ہے کہ 10جون کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا جائے گا گوکہ وزیراعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ آنے والے بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا جائے گا مگر موجودہ ملک کی معاشی صورتحال، وزراء و مشیروں کی فوج ظفر موج اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن وکڑی شرائط کے باوجود حکمران عوام کو کوئی خاطر خواہ ریلیف دے سکیں گے؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس لیے ملک کو معاشی و سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عوام کو ریلیف خاص طور پر عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے ایک جامع، سنجیدہ اور مستقل مزاجی پر مبنی دائمی منصوبہ بندی کی جائے۔ سب سے پہلے حکومت بجٹ میں سودی معیشت کے خاتمے کا اعلان کرے، کرپشن کے خاتمے، وزراء کی فوج میں کمی، سادگی و کفایت شعاری کو فروغ اور اشیائے خورو نوش، پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں میں واضح کمی کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے۔ اسی طرح انتقام و انتشار کی سیاست سے بالاتر ہوکر پوری قومی قیادت کو ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے باہمی اتفاق و قومی مفاد کی خاطر انتخابات کی تاریخ پر اتفاق و پیش قدمی کرنا چاہیے کیونکہ مسائل کا حل شفاف قومی انتخابات میں ہے اور عوام کو فیصلے کا اختیار دینا چاہیے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ اس سال کے بجٹ میں عوام کے لیے کوئی خاطر خواہ ریلیف بھی ہوگا یا روایتی طور پر لفاظی اور اعداد وشمارکے گورکھ دھندے کے ذریعے عوام کو ہمیشہ کی طرح سبز باغ دکھایا جائے گا!!۔