اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مبینہ آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا،چیف جسٹس آف پاکستان نے آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی،فون ٹیپنگ پر بے نظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں، کس جج نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی، اس کا تعین کون کرے گا؟ بظاہر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز کے خلاف مواد اکٹھا کر کے مس کنڈیکٹ کیا ہے،مبینہ آڈیو لیکس پر وفاقی حکومت کی جانب سے بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں،چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوتے ہی اٹارنی جنرل عثمان منصور روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے لارجر بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا،چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی۔ ہم نے سوال پوچھا تھا کہ 184بی میں لکھا ہے کم از کم 5ججز کا بینچ ہو ۔ 9مئی کے سانحے کے بعد عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں ۔ ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں۔ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی۔ حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے ۔ آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا،دوران سماعت وفاقی حکومت نے بینچ میں چیف جسٹس کی شمولیت پر اعتراض اٹھا دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیشن کے لیے جج کی نامزدگی کا فورم چیف جسٹس پاکستان کا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ چیف جسٹس خود کو کمیشن میں نامزد کریں۔ نہ ہی چیف جسٹس وفاقی حکومت کی چوائس کے پابند ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معذرت سے کہتا ہوں حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ اختیارات سے متعلق قانون میں حکومت نے 5ججز کا بینچ بنانے کا کہہ دیا۔ نئے قانون میں اپیل کے لیے 5 سے بھی بڑا بینچ بنانے کا کہہ دیا ۔ ہمارے پاس ججز کی تعداد کی کمی ہے ۔ حکومت نے جلد بازی میں عدلیہ کے بارے میں قانون سازی کی۔ حکومت قانون ضرور بنائے لیکن مشاورت کرے ۔ حکومت بتائے اس نے سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی کرتے ہوئے کس سے مشورہ کیا ۔ ہم سے مشورہ کرتے تو ضرور مشورہ دیتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے اگر نہیں کی تو بھی ایسا ہوا ضرور۔ فل کورٹ کی استدعا خود عدلیہ اصلاحات بل کے خلاف ہے۔ اٹارنی جنرل نفیس آدمی ہیں، آپ کا اور حکومت کا احترام کرتے ہیں۔ اب شدت سے سب کو احساس ہو رہا ہے کہ اداروں کا احترام ضروری ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدلیہ اصلاحات بل کس کے مشورے سے لایا گیا؟۔ حکومت نے فیملی سمیت ہر مقدمہ ہی کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔ اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔حکومت آڈیو لیکس کو قانونی قرار دے رہی ہے۔ عدالتی فیصلوں کی موجودگی میں حکومتی موقف کی کیا اہمیت ہے؟۔حکومت کے مطابق آڈیوز درست ہیں تو کمیشن بنانے کا کیا مقصد ہے؟وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ قرار دے چکی ہے کہ تصدیق کے بغیر آڈیوز، ویڈیوز نشر نہیں کی جا سکتیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ ہائی کورٹ نے جاسوسی پر مبنی مواد بھی نشر کرنے سے روک رکھا ہے۔ آڈیوز کی تصدیق کا کسی کو خیال ہی نہیں۔ آڈیو لیک ہوتی ہے، میڈیا نشر اور وزرا پریس کانفرنس کرتے ہیں.
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کہا کمیشن کا قیام آرٹیکل 209کی بھی خلاف ورزی ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں فیصلے دے چکی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 209ایگزیکٹو کو اجازت دیتا ہے کہ صدراتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکتی ہے۔ بظاہر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز کے خلاف مواد
چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے انکوائری کمیشن نے ہر کام جلدی کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ججز اپنی مرضی سے کیسے کمیشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اعلی عدلیہ کے کسی جج کے خلاف بھی چیف جسٹس کی اجازت سے جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی دوسرے فورم پر جا سکتے ہیں۔ میٹھے الفاظ استعمال کر کے کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بظاہر اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔ جب یہ آڈیو چلائی جا رہی تھی،کہا حکومت یا پیمرا نے اس کو روکنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی،وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ پیمرا نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ حکومت نے بھی پیمرا سے کوئی بازپرس نہیں کی۔