بھارت میں مسلمانوں کے لیے کوئی محبت کی دکان نہیں

778

بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کو بھارتی ریاست کرناٹک کے ریاستی انتخابات میں کانگریس کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسمبلی کی 224 نشستوں میں سے کانگریس نے 136 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ بی جے پی کو صرف 65 نشستوں پر کامیابی مل سکی ہے۔ ان انتخابات میں جنتا دَل کو 19 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ کرناٹک کی اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے 113 نشستوں پر کامیابی ضروری ہے۔ انتخابات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کرنے والے وزیر تعلیم ناگیش کو بدترین شکست ہوئی ہے۔ کانگریس نے انتخابات میں 12 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیے تھے جن میں سے 10 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ کرناٹک کے انتخابات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست میں سات روز تک بی جے پی کی انتخابی مہم چلائی۔ 19 ریلیاں نکالیں اور متعدد جلسوں سے خطاب کیا۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے بعد کانگریس کے رہنما راجیو گاندھی کے بیٹے اور اندرا گاندھی کے پوتے راہُل گاندھی نے کہا کہ کرناٹک میں نفرت کے بازار بند ہوگئے ہیں اور محبت کی دکانیں کھل گئی ہیں۔
بدقسمتی سے راہل گاندھی کا یہ بیان سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں اس لیے کہ ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی اور 32 لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلے ہوئے ہندوستان میں کہیں بھی مسلمانوں کے لیے محبت کی دکان موجود نہیں۔ پاکستان میں یہ خیال عام ہے کہ یہ بی جے پی ہے جس نے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے نفرت پیدا کی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں ہمیشہ سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے نفرت موجود رہی ہے اور بھارت کے مسلمانوں کے لیے ہندوئوں کی ہر جماعت بی جے پی کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ بی جے پی اس سلسلے میں پہلے نمبر پر ہے۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں سے نفرت کا معاملہ ہے تو کانگریس بھارت کی بی جے پی نمبر 2 کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ رہیں باقی جماعتیں تو وہ مسلمانوں کے لیے بی جے پی نمبر 3 کا کردار نبھاتی رہی ہیں۔
گاندھی کو بھارت کا سب سے وسیع المشرب ہندو رہنما قرار دیا جاسکتا ہے۔ گاندھی رسول اکرمؐ کی سیرت سے متاثر تھا اور سیدنا عمرؓ کے بارے میں گاندھی نے کہا ہے کہ اگر اسلام کو دوسرا عمرؓ فراہم ہوجاتا تو آج ساری دنیا مسلمان ہوتی۔ مگر گاندھی کی شخصیت کا زیادہ گہرا اور زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے سامنے مولانا محمد علی جوہر کی 1930ء کی ایک تقریر رکھی ہوئی ہے۔ اس تقریر میں مولانا محمد علی جوہر گاندھی سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ہندو انتہا پسند شدّھی کے عنوان سے تحریک چلا کر مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا رہے ہیں مگر گاندھی سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں۔ آخر وہ شدّھی تحریک میں شامل ہندوئوں کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑتے۔ 1930ء میں بی جے پی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ مگر اس زمانے میں گاندھی اور ان کی کانگریس مسلمانوں کے لیے بی جے پی بنی ہوئی تھی۔ چناں چہ 1930ء میں معاشی اور تعلیمی اعتبار سے کمزور مسلمانوں کو اسلام چھوڑنے اور ہندوازم اپنانے پر مائل کیا جارہا تھا۔ مسلمانوں سے کہا جارہا تھا کہ تم اور تمہارے آبائو اجداد پہلے ہندو تھے۔ یہ حملہ آور مسلمان تھے جنہوں نے بھارت کے ہندوئوں کو مسلمان بنایا۔ چناں چہ اب تمہارے لیے ’’پاک‘‘ ہونے کا موقع ہے۔ اسلام چھوڑو اور دوبارہ ہندو بن کر ’’شدھ‘‘ یا پاک ہوجائو۔ یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ گاندھی نے مولانا محمد علی جوہر کی تقریر کو جواب کے قابل نہ سمجھا اور شدھی کی تحریک پوری شدت سے جاری رہی۔
اردو ہر اعتبار سے ہندوستان کی پیدا وار ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اردو کا رسم الخط عربی اور فارسی سے ماخوذ ہے اور اردو میں عربی اور فارسی کے لیے ہزاروں الفاظ شامل ہیں۔ لیکن اردو کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اردو میں ہندی کے بھی ہزاروں الفاظ شامل ہیں اور اردو نے ہندی کی متعدد اصوات کو اپنے دامن میں سمیٹا ہے۔ اس کے باوجود گاندھی کی اردو دشمنی کا یہ عالم تھا کہ اس نے ہندوستان میں فارسی اور اردو دونوں کو پس منظر میں دھکیلا اور ہندی کے فروغ کے لیے کھلے عام کوششیں کیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہنے والے سرسید نے مسلمانوں کو کانگریس میں جانے روکا اور انہیں مشورہ دیا کہ انہیں اپنے مفادات کا تحفظ درکار ہے تو وہ اپنی الگ جماعت بنائیں۔ گاندھی ایک جانب دوقومی نظریے کے رد میں ایک قومی نظریے کا پرچار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی قوم ہیں۔ لیکن دوسری جانب ان کی اردو سے مخاصمت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اردو افسانے کے بنیاد گزار منشی پریم چند کو اردو سے برگشتہ کردیا اور پریم چند اپنی زندگی کے آخری دور میں اردو کو ترک کرکے ہندی میں افسانے لکھنے لگے۔ گاندھی کی مسلم دشمنی اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی۔ گاندھی کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے وجے لکشمی پنڈت کو اپنے حضور طلب کرلیا اور ان پر بہت ناراض ہوئے۔ گاندھی نے وجے لکشمی پنڈت سے کہا کہ 20 کروڑ ہندوئوں میں سے تمہیں ایک مرد بھی ایسا نہ ملا جس سے تم شادی کرسکو۔ گاندھی نے وجے لکشمی پنڈت پر اتنا دبائو ڈالا کہ انہوں نے اپنی شادی ختم کردی۔ اس کیے صلے میں وجے لکشمی پنڈت کو بھارت نے امریکا میں بھارت کا سفیر مقرر کردیا۔
پاکستان اور بھارت کے مسلمان بی جے پی کی جتنی مذمت کریں کم ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ 1906ء میں مسلم لیگ بی جے پی کی مسلم دشمنی کے ردِعمل میں قائم نہیں کی گئی تھی بلکہ مسلم لیگ کانگریس کی مسلم دشمنی کے ردعمل میں قائم کی گئی تھی۔ اسی طرح دوقومی نظریہ بھی بی جے پی کی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں تھا۔ یہ نظریہ کانگریس کی پالیسیوں کا نتیجہ تھا اسی طرح پاکستان کا مطالبہ بھی بی جے پی کے جبر کا حاصل نہیں تھا بلکہ یہ کانگریس کے جبر کا ثمر تھا۔ دوقومی نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا کہ مسلمان اور ہندو ایک دوسرے سے الگ قومیں ہیں۔ ان کا مذہب جدا ہے۔ ان کی تہذیب الگ ہیں۔ ان کی تاریخ ایک دوسرے سے الگ تشخص رکھتی ہے۔ جو تاریخی شخصیتیں مسلمانوں کی ہیرو ہیں وہ ہندوئوں کے لیے ولن ہیں اور جو شخصیتیں ہندوئوں کی ہیرو ہیں وہ مسلمانوں کی ولن ہیں۔ جیسا کہ ظاہر ہے قائداعظم نے یہ امتیازات بی جے پی کے ظہور کے زمانے میں بیان نہیں کیے تھے بلکہ انہوں نے ان امتیازات کی نشاندہی کانگریس کے عروج کے عہد میں کی تھی۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ قیام پاکستان کے بعد ہونے والے مسلم کش فسادات میں دس لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ 80 ہزار سے زیادہ مسلم عورتیں اغوا ہوئیں۔ یہ ’’کارنامہ‘‘ بی جے پی کی انتہا پسندوں نے انجام نہیں دیا بلکہ یہ کارنامہ کانگریس کے انتہا پسندوں اور ان کے اتحادی سکھوں نے انجام دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد اپنی زندگی کی آخری سانس تک ایک قومی نظریے کے علمبردار اور کانگریس کے رہنما رہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
مگر انہوں نے اپنی کتابindia wins freedom میں لکھا ہے کہ جب قیام پاکستان کے بعد دہلی میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے اور ممتاز مسلم گھرانے بھی ان کی زد میں آنے لگے تو انہوں نے بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو سے کہا کہ وہ کم از کم دہلی میں مسلم کش فسادات روکیں۔ اس کے جواب میں نہرو نے کہا کہ میں بھارت کے وزیرداخلہ سردار پٹیل سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ وہ فسادات کو روکیں مگر وہ میری بات ہی نہیں سنتے۔ نہرو محمد خان جونیجو نہیں تھے۔ وہ بھارت کی جدوجہد آزادی کے ہیرو تھے۔ وہ بھارت کے مقبول وزیراعظم اور گاندھی کے بعد کانگریس کی اہم ترین شخصیت تھے۔ چناں چہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ سردار پٹیل نہرو کے حکم کو ماننے سے گریز کریں۔ اس کے معنی یہ تھے کہ خود نہرو بھی مسلم کش فسادات کو روکنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ آپ دیکھ رہے ہیں نا کہ گاندھی اور نہرو کے زمانے میں بھی بھارت کے اندر مسلمانوں کے لیے محبت کی کوئی دکان نہیں کھلی ہوئی تھی۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کی صورت حال پاکستان کا داخلی معاملہ تھا مگر بھارت نے ہمارے داخلی معاملے میں مداخلت کی اور سقوط ڈھاکا کی راہ ہموار ہوئی۔ اس موقع پر بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے جو نہرو کی دختر نیک اختر تھیں فرمایا کہ آج ہم نے ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے اور ہم نے دوقومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ اندرا گاندھی کے اس بیان سے ثابت ہوا کہ بھارت کی ہندو قیادت اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ایک ہزار سالہ تاریخ کے تناظر میں سوچتی اور عمل کرتی ہے اور اس نے اس ایک ہزار سال میں کبھی بھارت کے اندر مسلمانوں کے لیے محبت کی دکان نہیں کھولی۔
پاکستان اور بھارت دونوں جگہوں کے مسلمان بھول جاتے ہیں کہ بلاشبہ بابری مسجد کی شہادت کے ذمے دار بی جے پی کے انتہا پسند تھے۔ مگر یہ سانحہ کانگریس کے دور میں ہوا۔ اس وقت بھارت پر کانگریس کے وزیراعظم نرسہما رائو کی حکومت تھی اور اگر وہ ریاست کی اعشاریہ ایک فی صد طاقت بھی استعمال کرتے تو بابری مسجد کو شہید ہونے سے بچایا جاسکتا تھا مگر نرسہما رائو بابری مسجد کی شہادت کے روز سارا دن سوتے رہے تا کہ ان سے کوئی کہہ ہی نہ سکے کہ بابری مسجد کی شہادت کو روکو۔ یہ امر بھی کوئی راز نہیں کہ بھارت کے مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور سیاسی حالت کانگریس کے طویل دور حکومت میں ابتر ہوئی جسے بی جے پی نے انتہا پر پہنچا دیا۔ کانگریس اگر مسلمانوں کے لیے محبت کی دکانیں کھولنے والی ہوتی تو کبھی ایسا نہ ہوتا۔