دِلو رام کوثری کون تھا

1638

کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اے ابن آدم علامہ اقبال کا یہ شعر نہیں بلکہ ایک عاشق رسولؐ کے دل کی آواز ہے۔ دِلو رام ایک ہندو شاعر تھا جس نے نبی کریمؐ کی محبت میں بے شمار اشعار کہے۔ ان کا قلمی نام کوثری تھا۔ آپ کی شاعری مسلمانوں اور ہندوئوں میں یکساں مقبول تھی۔ جب ان کے من میں عشق نبویؐ کا دیپ پوری آب و تاب سے چمکا تو انہوں نے محبوب کریمؐ کی محبت میں کثرت سے نعت کہنا شروع کردی۔ ہندوئوں نے ان پر شدید اعتراض کیا اور کہا ’’کہ تم ہندو ہو کر مسلمانوں کے نبیؐ کی تعریف میں اشعار کہتے ہو تم کیسے ہندو ہو۔ ہندوئوں نے سختی سے کہا کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہے۔ تم نے ہندوئوں کا نام شرمندہ کیا ہے‘‘۔
دِلو رام کوثری نے جواب دیا ’’مجھے میرے پیار سے دور نہ کرو انہوں نے اپنی محبت کی وضاحت میں ایک خوبصورت شعر لکھا۔
کچھ عشق محمدؐ میں نہیں شرط مسلمان
ہے کوثری ہندو بھی طلب گار محمدؐ
یعنی مسلمان ہونے کی وجہ سے سیدنا محمدؐ سے محبت کرنے کی کوئی شرط نہیں ہے اور کوثری تو ہندو ہو کر بھی سیدنا محمدؐ کی محبت کا طلب گار ہے۔
دِلو رام کوثری بہت بیمار ہو کر بستر مرگ پر پہنچ گئے۔ اخبارات اور رسائل کے ذریعے بھارت بھر میں ان کی خراب صحت کی خبر پھیل گئی۔ 28 دسمبر 1931ء کی وہ سرد صبح بھی آن پہنچی جب یہ دیوانہ عاشق رسولؐ شدید تکلیف و بیماری کی حالت میں تھے۔ نزع کے وقت ان سے محبت و عقیدت رکھنے والوں نے انہیں گھیرا ہوا تھا اور لوگوں کی کثیر تعداد ان کے گرد جمع تھی لیکن وہ مسلسل دروازے کی طرف دیکھے جارہے تھے جیسے کسی کا انتظار کررہے ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنے ہاتھوں پر وزن ڈال کر اُٹھنے کی کوشش کرنے لگے اور اپنے پاس موجود افراد سے کہا کہ انہیں اُٹھایا جائے، لوگوں نے سہارا دے کر اُٹھایا تو وہ کھڑے ہوگئے۔ لوگ حیرت سے یہ ماجرا دیکھ رہے تھے کہ جو شخص اُٹھ نہیں سکتا تھا وہ کھڑا کس طرح سے ہوگیا۔ دِلو رام آبدیدہ ہوگئے اور روتے ہوئے کہنے لگے میں نے ساری عمر جس کی تعریف کی ہے وہ آرہے ہیں۔ سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے مبارک والد آگئے ہیں۔ حالاں کہ میں نے ان کے مذہب کو بھی قبول نہیں کیا، یہ میرے محبوب کیسے کمال کے ہیں جو میری تکلیف میں میرے پاس پہنچ گئے ہیں۔ دِلو رام نے نبی کریمؐ کے ساتھ روتے ہوئے گفتگو شروع کردی اور ساری دُنیا سے بے نیاز ہوگئے۔ محبوب کریمؐ نے فرمایا دِلو رام تمہارا وقت آن پہنچا ہے، عزرائیل یہاں موجود ہیں میں نہیں چاہتا کہ جو شخص مجھے پسند کرتا ہے وہ جہنم میں جائے، میں اسے اپنے ساتھ جنت میں لے کر جانا چاہتا ہوں۔ دِلو رام نے نبی اکرمؐ کے ان الفاظ کو دھرایا اور باآواز بلند کلمہ شہادت کی تلاوت کی، پھر کہنے لگے میرے آقاؐ آپ نے مجھے کلمہ سکھایا ہے اب آپ ہی مجھے اپنی پسند کا ایک مسلم نام بھی عطا فرمادیں، میں محسوس کرسکتا ہوں کہ موت کا فرشتہ تقریباً مجھ پر حاوی ہورہا ہے۔ دِلورام نے کہا کہ مجھے سرکار دو عالم نے کوثر علی کوثر کا نام عنایت فرمایا ہے۔ بس یہ کہنا تھا جو چند لمحے پہلے دِلو رام تھا کوثر علی کوثر بن گیا اور ان کی روح پرواز کرگئی۔ انہیں لاہور میں سپرد خاک کردیا گیا۔ بے شک عشق مصطفی انسان کو ڈوبنے نہیں دیتا۔
کوثر علی کوثر کے چند اشعار:
کچھ عشق محمدؐ میں نہیں شرط مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلب گار محمدؐ
اللہ دے، کیا رونقِ بازار محمدؐ
کہ معبودِ جہاں بھی ہے خریدار محمدؐ
رحمت العالمین کے حشر میں معافی کھلے
خلق ساری شافعِ روز جزا کے ساتھ ہے
لے کے دِلو رام کو جنت میں جب حضرت گئے
معلوم ہوا کے ہندو بھی محبوب خدا کے ساتھ ہے
ہندو سمجھ کے مجھ کو جہنم نے دی صدا
جب پاس میں گیا تو نہ مجھ کو جلا سکا
بولا کہ تجھ پہ کیوں میری آتش ہوئی حرام
کیا وجہ تجھ پہ شعلہ جو قابو نہ پاسکا
کیا نام ہے تو کون ہے مذہب تیرا کیا ہے
حیراں ہوں میں عذاب جو تجھ تک نہ جاسکا
میں نے کہا کے جائے تعجب ذرا نہیں
واقف نہیں تو میرے دلِ حق شناس کا
ہندو سہی مگر ہوں ثنا خواں مصطفی
اس واسطے نہ شعلہ تیرا مجھ تک آسکا
ہے نام دِلو رام تخلص ہے کوثری
اب کیا کہوں بتا دیا جو کچھ بتا سکا
یہ تو ایک عاشق رسولؐ کی کہانی تھی جو میں نے اپنے قارئین کی نظر کی ہے۔ ہم الحمدللہ مسلمان ہیں ہم کو تو سچا عاشق رسولؐ ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے ہم دنیا کی چاہت میں سب کچھ بھول رہے ہیں، ہمیں تو درود شریف کی صورت میں اللہ نے اتنا پیارا تحفہ دیا ہے اگر ہم کثرت سے سرکار دو عالمؐ پر اگر درود شریف پڑھتے رہیں تو ہماری ہر مصیبت ٹل جاتی ہے، پریشانی دور ہوجاتی ہے مگر افسوس کہ آج ہم کئی کئی گھنٹے دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں پر بیٹھ کر بے لگام گفتگو کرتے رہتے ہیں مگر ایک بار پھر درود شریف نہیں پڑھتے۔ جنرل محمد ضیا الحق ایک سچے اور سادہ فوجی افسر تھے اُن کا میں نے ایک انٹرویو پڑھا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ مجھے جو عزت ملی اور میں ملک کا سربراہ بنا یہ سب درود شریف کی برکت تھی، میں ہر نماز کے بعد اور فارغ اوقات میں آقا دو جہاں پر کثرت سے درود شریف کا ورد کرتا تھا یہ ہے درود شریف کی برکت۔ جو لوگ بھی درود شریف کی کثرت کرتے ہیں وہ ہمیشہ خوش و خرم رہتے ہیں، اُن کی آمدنی میں برکت ہوتی ہے اور ہر جگہ عزت ملتی ہے، بگڑے ہوئے کام بھی سنور جاتے ہیں۔ یہ میرا ایمان ہے تو آئیں آج ہی سے ہم درود شریف کی کثرت شروع کردیں کل کس نے دیکھی ہے۔ رمضان کی 27 ویں شب کی برکت سے میرا وطن ہمیشہ سلامت رہے گا اور اس کو برباد کرنے والے جلد برباد ہوگئے۔