قومی یا خونیں دھارا

961

میں اپنے بچپن میں ایک لفظ بہت کثرت سے سنا کرتا تھا کہ قومی دھارے میں شامل ہو جاؤ۔ جب پختہ عمر میں داخل ہوا تو کانوں میں یہ صدائیں گونجنے لگیں کہ پاکستان میں رہنا ہے تو پاکستانی بنو۔ خوش قسمتی یا بد قسمتی میرے اجداد کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی لے آئی۔ آج تک عالم یہ ہے کہ جب بھی کوئی کراچی کی جانب آتا ہے، خواہ محض تفریحاً آئے یا مستقلاً رہنے کے ارادے سے، اس کے منہ سے شاید ہی کسی نے یہ سنا ہو کہ وہ ’’سندھ‘‘ جا رہا ہے، بعینہ ہمارے خاندان نے جب بسلسلہ روزگار کراچی کی جانب ’’ہجرت‘‘ کی تو کسی کے لبوں پر یہ جملہ نہیں تھا کہ وہ سندھ جا رہا ہے، یہی عالم پورے پاکستان کا تھا کہ جب بھی کوئی کراچی کا رہائشی پاکستان کے کسی بھی صوبے کی جانب اور خاص طور سے پنجاب کے کسی بھی شہر، پنڈ یا گاؤں جاتا تو دیکھنے اور ملنے والے فوراً کراچی والوں کو پہچان لیا کرتے تھے اور بے ساختہ کہا کرتے تھے کہ ’’تسی کراچی توں آئے او‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے کچھ برس قبل تک یہ احساس ہی نہ ہو سکا کہ کراچی سندھ کا حصہ اور سندھ کا دارالحکومت ہے۔ پھر بد قسمتی سے اہل سندھ کی جانب سے نہایت شد و مد کے ساتھ یہ آوازیں آنے لگیں کہ ’’مر سو مر سوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ اور یہ صدائیں یوں آنے لگیں کہ اہل کراچی یا سندھ کے شہروں میں رہنے والوں کے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک کی وجہ سے یہ سوچ ابھرنے لگی کہ جب ہم یعنی شہری علاقوں میں رہنے والوں کی قانونی اور اخلاقی حدود ہی ایک دوسرے سے جدا ہیں تو کیوں نہ صوبے کی شکل میں شہری علاقوں، خصوصاً کراچی اور حیدر آباد کو ایک الگ صوبہ قرار دے کر اپنے اپنے انتظامی امور کو تقسیم کر لیا جائے۔ جب آبادیاں بڑھ جایا کرتی ہیں اور ان کے انتظامات کو سنبھالنا مشکل ہونے لگتا ہے تو دنیا کا ہر ملک اپنے انتظامی امور میں سہولت پیدا کرنے کے لیے اسی قسم کی تقسیم کر ہی لیا کرتا ہے۔ شاید اسی سوچ کو دبانے یا کچلنے کے لیے ایک جانب نفرتوں کو فروغ دیا گیا اور دوسری جانب ایسا مطالبہ کرنے والوں سے کہا گیا کہ ’’سندھ میں رہنا ہے تو سندھی بن کر رہو‘‘۔ اب سندھ کے شہری علاقوں کے لیے دو بڑے اہم مطالبات رکھ دیے گئے۔ پاکستان کہتا ہے کہ پاکستان میں رہنا ہے تو پاکستانی بن کر رہو اور سندھ کہتا ہے کہ اگر سندھ میں رہنا ہے تو سندھی بن کر رہو۔ یہاں پاکستان کی خاموشی اور سندھ کی ’’بغاوت‘‘، دونوں کی پُر اسراریت ناقابل ِ فہم ہو رہ جاتی ہے۔ پاکستان کی خاموشی یوں کہ کیا سندھ پاکستان میں شامل نہیں اور سندھ کی بغاوت یوں کہ کیا پاکستان میں رہنے والا خواہ وہ سندھی ہو، پنجابی ہو، بلوچی ہو یا پختون، وہ پاکستانی نہیں؟۔ اب کراچی میں رہنے والے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان بری طرح پھنس کر رہ گئے ہیں۔ جب وہ پاکستانی بننے کی کوشش کرتے ہیں تو سندھ انہیں سندھی بن جانے کی یا بصورتِ دیگر
’’سبق‘‘ دینے کی کوشش کرنے لگتا ہے اور جب وہ خوف زدہ ہو کر سندھی بننے لگتے ہیں تو پاکستان ان کے سر پر بندوق لیکر کھڑا ہو جاتا ہے کہ خبردار پاکستانی بن کر رہو۔ میں نے متعدد بار یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ خواہ ہم مسکینوں کو پاکستانی بننا ہو یا سندھی، کوئی تو ہمیں یہ سمجھائے کہ ان دونوں رشتوں کے اختلاط کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے۔ اگر کوئی اپنا مذہب بدلنا چاہے تو وہ دوسرے مذہب کے کچھ کلمات ادا کرنے کے بعد یہودی، ہندو، عیسائی یا مسلمان کہلانے لگتا ہے تو کیا سندھی یا پاکستانی بننے کے لیے ایسے ہی کچھ کلمات ادا کرکے پاکستانی یا سندھی بن جایا جا سکتا ہے، تو اس کا کوئی معقول جواب کہیں سے بھی نہ ملا۔ پھر یہ سوال بھی ذہن میں اٹھا کہ کہ اگر اہل ِ کراچی (یہاں اہل کراچی سے مراد اردو بولنے والوں ہی کے لیے جاتے ہیں کیونکہ باقی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والوں سے پاکستانی یا سندھی بنو کا کبھی کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا) واقعی پاکستانی یا سندھی بن جائیں یا کہلائے جانے لگیں تو پاکستان میں بسنے والی باقی قومیتیں کیا کہلائی جائیں گی؟۔ اس بات کا بھی کوئی جواب تو نہ ملا لیکن یہ بات بہت شدت سے سامنے آئی کہ ’’ہم‘‘ سب قومیتوں کو ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اول تو ’’ہم‘‘ ہے کون، اور قومی دھارے میں شامل کرنے کا فارمولا کیا ہے۔ مجھے تو یہ نعرہ بھی پاکستانی بنو یا سندھی بن کر رہو جیسا ہی لگا۔ نہایت سنجیدہ اور بہت ہی غور طلب بات یہ ہے
کہ ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل کرنے کی باتیں 3 پاکستانی قومیتوں ہی سے کیوں؟۔ اہل سندھ جس میں سرِ فہرست اردو بولنے والے، بلوچی اور خان بابا۔ ہے نہ حیرت کی بات، تو کیا اس مطلب یہ ہے کہ پاکستان صرف ’’بڑے بھائی‘‘ کا نام ہے کیونکہ ان کے متعلق تو کبھی یہ بات سننے میں نہیں آئی کہ پاکستانی بنو یا بڑے بھائی کو بھی قومی دھارے میں شامل ہونا چاہیے۔
گو کہ یہ بات کہ قومی دھارے میں شامل کس طرح ہوا جاتا ہے، آج تک سمجھ میں نہیں آئی لیکن بڑے بھائی کو چھوڑ کر ہر صوبے میں بندوق برداروں کو دیکھ اس بات کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی بنانے میں گولہ و بارود کا کتنا بڑا عمل دخل ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ ’’ڈھیٹ‘‘ قسم کے افراد کو اٹھالیا جاتا ہے، ان پر تشدد کر کر کے پاکستانی بنانے کے مرحلوں سے گزارا جاتا ہے، کچھ ہاتھیوں کی طرح میں ہرن ہوں، میں ہرن ہوں کہتے پائے جانے لگتے ہیں اور زیادہ تر تجربہ ناکام ہونے کی صورت میں دوسری دنیا کے سفر پر روانہ کر دیے جاتے ہیں۔ نہ جانے کتنے ’’غیر‘‘ پاکستانی 75 برس سے سندھ میں سندھی بنائے جانے کے چکر میں اور پاکستان میں قومی دھارے میں شامل کرنے کے تجربوں میں اسی طرح کام آتے رہے ہیں لیکن پاکستان ہو یا سندھ، اب تک نہ تو سندھ میں رہنے والے غیر سندھیوں کو سندھی بنانے میں کامیاب ہو سکا ہے اور نہ ہی پاکستان دیگر 3 قومیتوں کو ’’قومی‘‘ دھارے میں شامل کر سکا ہے البتہ سندھ اور پاکستان خون کے دھارے بہانے کے باوجود اپنے ستر پچھتر برس کے ناکام تجربوں سے ہاتھ اٹھانے کے لیے آج بھی تیار دکھائی نہیں دیتے۔