کچھ روز قبل کیوکنوف کی سیر کا موقع ملا۔ ایک ہندستانی عزیزہ کو بہت شوق تھا تو بس ان کے شوق کی خاطر ناچیز کو بھی ہر رنگ کے ٹیولپس سے بھرے اس خوبصورت پارک میں ایک دن گزارنے کا موقع ملا۔ ملک ملک کے لوگ، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں سے جان پہچان ہوئی۔ سب سے زیادہ اس پارک میں ہندوستانی بہن بھائی نظر آتے ہیں۔ اکثر ہندی گانے یہاں عکس بند ہوئے ہیں۔ جب ہندستانی اور پاکستانی مل بیٹھیں تو مشکل ہی ہے کہ سیاست یا ملکی حالات زیر بحث نہ آئیں۔ پاکستانی احباب کا مسئلہ حد سے زیادہ مہنگائی ہے، روٹی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ سیاستدان ہیں کہ بدلے کی سیاست میں پڑے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب انڈین احباب آج کل جس مسئلے سے دوچار ہیں وہ ہے الیکشن۔ بھارت میں مئی 2024 لوک سبھا الیکشن کا سال ہے۔ ظاہر ہے کہ انتخابی مہم زوروں پر ہے تو زیادہ تر انڈین احباب اسی موضوع پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ ہندو سیاستدان کا ووٹ بینک تب بھرتا ہے جب وہ مذہبی جذبات کو خوب بھڑکا دے۔ ہندو اور مسلمان کبھی ایک نہیں ہو سکتے، مسلمانوں کا ہند سے کوئی تعلق نہیں، وہ ہندو دھرم کے دشمن ہیں۔ اور سب سے زیادہ حیرانگی اس بات پر ہوئی جب ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے اس بات کی شکایت کرتے نظر آئے کہ انہیں مسلمانوں کی دکانوں سے خریداری کرنے سے روکا جاتا ہے۔ زبردستی انہیں دوسری دکان کی جانب دھکیلا جاتا ہے کہ مسلمان پرچون فروش ہندو دھرم کا مخالف ہے، اس کی دکان کا سامان ہندو کے لیے نہیں ہے۔ کتنے ہی چھوٹے کاروباری مسلمان اس الیکشن مہم کے دوران گھروں میں بیٹھے ہیں۔ کووڈ 19کے دنوں میں جو کچھ مسلمان برادری کے ساتھ بھارت میں ہوا اسے سن کر تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اب نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو اور سکھ برادری کے لوگ بھی نالاں نظر آتے ہیں کہ مودی سرکار نے مہم شروع کر رکھی ہے کہ مغلوں کا نام و نشان مٹا دینا ہے۔ نا چیز کے منہ سے نکل گیا کہ تاج محل گرا دو فوراً۔
مغلوں کی بنائی عمارات ذکر ہو تو ہندستان کا آدھا ٹورزم ختم ہو جائے گا۔ بھارت میں مغل دور کی عمارات کا مختصر جائزہ بھی لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ ہند کے فن تعمیر میں مغلوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جیسے کہ پہلے مغل بادشاہ بابر کے دور میں کابلی مسجد یا پانی پت مسجد، جامع مسجد سمبل اور رام باغ آگرہ کی تعمیر ہوئی۔ اکبر کے دور میں آگرہ کا قلعہ، بلند دروازہ فتح پور، الہ آباد کا قلعہ، پنچ محل فتح پور، اتر پردیش میں قابل ذکر فن تعمیر ہے۔ جہانگیر کے دور میں فن مصوری، پرندوں اور پھولوں کے علم اور سائنس کو فوقیت دی گئی۔ قابل ذکر فن تعمیر اکبر کا مقبرہ، کشمیر میں شالیمار باغ کے علاوہ لاہور میں انار کلی کا مقبرہ بھی شامل ہے۔ مگر یہاں ذکر چونکہ ہندوستان میں مغل تعمیرات کا ہے تو پاکستان کی مغل عمارات کی تفصیلات نہیں بیان کی جا رہیں۔ یوں بھی پاکستان میں مغلوں کا نام و نشان مٹانے جیسی کوئی تحریک نہیں، نہ ہی یہاں ووٹ کے لیے غیر مذہب دشمنی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بارہا ایسے حالات جان کر دل سے اللہ کا شکر تو ادا ہوتا ہی ہے ساتھ ساتھ قائد محمد علی جناح کے لیے عزت اور بڑھ جاتی ہے۔ خیر مغل فن تعمیر کی طرف واپس چلتے ہیں جن کا یک اور شاہکار اعتماد الدولہ کا مقبرہ جو آگرہ میں تعمیر کیا گیا جسے زیور خانہ کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ عمارت پہلی بار لال مٹی کے بجائے سفید سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی۔ مریم زمانی عرف، مانی بیگم کا مقبرہ جو سکندریہ میں جہانگیر نے تعمیر کروایا۔
شاہجہان کے دور کی بات کی جائے تو یہ فن تعمیر کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ باقی دنیا کیا کہتی ہے اس سے ہٹ کر خود بھارت کی تاریخ کی بہترین تعمیرات کا دور کہا جاتا ہے۔ جب شاہجہان نے آگرہ سے دہلی کو دارالحکومت قرار دیا تو شاہجہان آباد کے نام سے ایک شہر آباد کیا، اس کے علاوہ قلعہ اور جامع مسجد دہلی، آگرہ کا تاج محل اور دہلی میں ہی لال قلعہ کی تعمیر قابل ذکر ہیں۔ اب اگر فنون لطیفہ کی بات کی جائے تو مسلمانوں نے مصوری میں فارسی، اسلامی اور یہاں تک کہ مہا بھارت کی کتابوں کی تواریخ کو بھی موضوع بنایا۔ اب یہاں تک تو مغلوں کے دور کی تعمیرات کی بات تھی، اب اگر یہ اندازہ لگانا ہو کہ ان تعمیرات کو سراہنے دنیا بھر سے کتنے لوگ آتے ہیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ ہر سال صرف تاج محل میں 7 سے 8 ملین سیاح آتے ہیں۔ بھارتی سیاح کے لیے پچاس روپے اور غیر ملکیوں کے لیے تاج محل کی ٹکٹ 1100 انڈین روپے ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا عجوبہ ہے۔ ایک گائیڈ بارہ سو پچاس روپے تاج محل کے لیتا ہے، آگرہ قلعے کا پانچ سو پچاس روپے اور اسی طرح باقی عمارات کی شہرت کے مطابق یہ عمارات آمدنی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔
2021 تک لال قلعہ دہلی کی سیر کرنے والوں کی سالانہ تعداد 127,186.000 ریکارڈ کی گئی۔ ایک انڈین شہری کے لیے ٹکٹ 35 روپے اور غیر ملکی کے لیے 550 روپے۔ اب اگر سیاحوں کی تعداد دیکھی جائے اور ان سے ہونے والی آمدنی تو کیا یہ جو تحریک ہے مغل کا نام تک مٹا دینا چاہیے تو کیا نریندر مودی اتنی ہمت کرے گا کہ تاج محل اور آگرہ جیسے شہروں سے مغلوں کی بنائی ہوئی عمارات کو گرا دے۔ گو کہ تاج محل یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ میں شمار ہوتا ہے مگر جب اپنے ہندو ازم کی بات آتی ہے تو کیا مغلوں اور مسلمانوں کی بنائی ہوئی عمارات گرانے کی جسارت آر ایس ایس کے لوگ کر سکتے ہیں؟
ایک اور حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں وہاں کی مساجد کے بازو میں ہی کسی پتھر کو لال رنگ کر یا گیرو رنگ کر پہاڑی کے پاس رکھ دیا جاتا ہے اور آر ایس ایس کے چار یا پانچ لوگ اکٹھے ہو کر پوجا کرتے اور لوگوں کو ورغلاتے ہیں کہ یہاں تو مندر کے آثار ملے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں اور پھر مسجد کو تالا لگا دیا جاتا ہے، جیسے ایک انڈین دوست کا گولکنڈہ قلعہ، حیدر آباد جانے کا اتفاق ہوا تو یہ سارا قصہ معلوم ہوا کہ مسجد کتنی زنجیروں اور تالوں سے جکڑی پڑی ہے۔ یہ سب جاننے کے بعد خدا کا شکر ادا کیا کہ اقبال اور قائد جیسے لوگ اس قوم پر کتنا احسان کر گئے یہ اور بات ہے آج ملک کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک عام آدمی کی پہنچ سے روٹی ایسے ہوگئی ہے جیسے کسی سیپ کا انمول موتی ہو۔ جب اپنے پڑوسی ملک میں مسلمانوں کے یہ حالات جاننے کا موقع ملتا ہے تو اپنے پاکستانی ہونے پر خود بخود فخر محسوس ہوتا ہے اور جب کسی کے منہ سے یہ جملہ ادا ہو کہ تمہارے قائد نے صحیح کہا تھا کہ جو مسلمان پاکستان کے ساتھ نہیں وہ بعد میں پچھتائیں گے۔ جہاں اپنی شناخت پر خوشی ہوتی ہے اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لیے دل دکھتا ہے، یہ اور بات کہ آج کے حکمرانوں نے تو پاکستانیوں کے بھی ناکوں چنے چبوا دیے۔ جانے کب یہ احساس ہمارے حکمرانوں میں جاگے گا کہ ان کی نسل یہیں ختم نہیں ہو جائے گی کچھ لوٹ مار اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی بچا رکھیں۔