بچپن میں پڑھا کرتے تھے متضاد الفاظ لکھیں ایک لفظ دیا جاتا تھا جس کا الٹ لکھنا ہوتا تھا۔ کالا: سفید۔ رات: دن۔ امیر: غریب۔ بوڑھا: جوان وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس زمانے میں بھی شعور نہ ہوتے ہوئے بھی دلِ ناداں سبھی تفاوتیں برداشت کر لیا کرتا تھا مگر امیر: غریب کی اصطلاحی ’’ضد‘‘ ہضم نہ ہو پائی جی چاہتا تھا کہ کہہ دیں کہ کالا سفید، رات دن، مشرق مغرب جیسا تضاد تو قدرت کا ودیعت کردہ ہے مگر یہ امیری غریبی سراسر معاشی و معاشرتی ناہمواری کے سبب ہے وگرنہ جہاں یہ ناہمواریاں نہیں وہاں وقت کے حاکم کو پانی میں ڈبو کر سوکھی روٹی کھاتے دیکھا ہے اور اسی کی عوام کو پرتعیش لنگر سے فیضیاب ہوتے دیکھا ہے، جس لنگر کا اجراء کرنے والا وہی حاکم تھا۔ بہرحال تضادات کی بات چلی تو اس قدر طویل ہو گئی کہ وقت کی طنابیں کھینچ کر ضبط تحریر میں لائیں تو آج غریب کے لیے خسارہ ہی خسارہ بچتا ہے، مگر کچھ خسارے ہمیشگی کے فائدے کے لیے اٹھائے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک خسارہ بلوچستان کے مولانا ہدایت الرحمان نے ایک سو بیس دن قید رہ کر اٹھایا اور ان کی رہائی کی کے لیے پر امن کوشش کرنے والوں نے بھی تاخیر سے ہی سہی اپنے مقصد کو پالیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کیس کے متوازی جب ’’لاڈلے‘‘ کا کیس سامنے آیا تو سب کو احساس ہوا کہ ملک وقوم کی املاک کو نقصان پہنچانے والے کردار کے لیے منصف کھڑے ہو کر استقبال کرتے ہیں اور قید کے 72 گھنٹے بھی پورے نہیں ہوتے اور مجرم رہا کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ملک کو جوڑ کر رکھنے کے لیے اک غریب صوبے کے غریب مچھیرے کا بیٹا آواز اٹھاتا ہے تو نہ صرف قدغنیں لگتی ہیں عین عدالت کے احاطے سے گرفتار ہوتا ہے اور قانون اس وقت اندھا ہو جاتا ہے اسی اندھے قانون کی آنکھوں کی بینائی تب واپس آتی ہے جب بیک وقت اس قانون کی بیگم، ساس اور بیٹی کا لاڈلا عدالت کے احاطے سے گرفتار ہوتا ہے تو اس قانون اصولوں کی دھجیاں بکھرتی ہیں ملک کی سڑکوں پر دیوان، فوج، عدلیہ و مقننہ سب کی عزت بیک جنبش ِ قلم تاراج کی جاتی ہے مگر اعلیٰ عدالت کے منصف کو مجرم دیکھ کر قرار واقعی خوشی محسوس ہوتی ہے اور اسی خوشی میں وہ اسے رہائی کا پروانہ تھما دیتے ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان کا غیور بیٹا اور اس کی حواری جماعت قانون، انصاف اور اخلاقیات کے دائروں میں مقید ہو کر احتجاج کرتے چلے جاتے ہیں اور 72 گھنٹوں بعد نہ سہی 120 دن بعد ہی سہی ربّ العالمین سنتا سب جانتا ہے اور انصاف ہو کر رہتا ہے حق وباطل کا، صحیح اور غلط کا، انصاف وبے انصافی کا، خیر وشر کا، بدی اور نیکی کا تضاد کھل کر سامنے آتا ہے اور یہ وہی تضاد ہے کہ جو فطری نہیں اختیاری ہے چاہو تو اختیار کر لو چاہو تو چھوڑ دو۔ اختیار کے اثرات ہوا کرتے ہیں جو تاریخ رقم کرتی ہے اور اچھے اور برے القابات سے لوگ جانے اور پہچانے جاتے ہیں یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کس کو تاریخ اچھے الفاظ میں یاد کرے گی اور کس کی شخصیت تاریخ میں مسخ ہوجائے گی یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے ابد تک جاری رہے گا بس ہمیشہ ہی کوشش کیجیے گا کہ بھلے سے دیر ہوجائے اندھیر مت مچائیے گا ملامت کرنا درست ہے لیکن ملامت زدوں میں شامل ہرگز نہ ہوں۔ اللہ پاک ہماری آپ سب کی حفاظت فرمائے آمین۔