نادان دوست ایسے ہی پھنساتے ہیں

883

پی ٹی آئی بچھائے گئے جال میں آگئی اور اب وہ پھنسے ہوئے پھندے میں پھڑپھڑا رہی ہے۔ موقع پرست بھاگ رہے ہیں جو بچ رہے وہ پکڑے جارہے ہیں کہ انہوں نے ریڈ لائن کیسے کراس کرلی۔ جہاں پرندہ پَر نہیں مار سکتا، اس محفوظ جگہ کو کیسے پراگندہ کر ڈالا۔ اس کی حفاظت کنندہ نگاہوں اور حفاظت سے اوجھل رہے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ تم بھی نگاہوں میں نہیں ہو۔ حفاظت کنندہ کی چشم پوشی اور غفلت کیوں تھی یہ معما ہے جو نہ سمجھنے کا ہے نہ سمجھانے کا، مگر یہ بات تو وہ سب سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔ کورکمانڈر کی رہائش گاہ مال غنیمت کیونکر قرار پائی۔ ہر وہ علامت جو تحفظ ملک اور قوم کی علامت تھی ملیامیٹ کرنے کی جرأت کس نے بخشی۔ اہم سوال یہ ہے کہ یہ کس کے اشارہ پر ہوا۔ امریکی افراد کی پی ٹی آئی کے ذمے دار سے ملاقات کا شاخسانہ تھا یا پی ٹی آئی کو ٹریپ کیا گیا۔ یہ راز تو وہ جانیں جو راز دان کہلاتے ہیں جو قبر سے خبر نکال لینے کے دعویدار ہیں۔ میں ایک آپ بیتی شیئر کرتا ہوں جو اس معاملے سے ملتی جلتی ہے۔ شاید کہ اُتر جائے ان کے دلوں میں یہ بات۔

بات تو پرانی ہے میرے بھائی کا ایک سے تنازعے کے بعد ہاتھا پائی ہوئی فریق ثانی کے کپڑے تار تار کر ڈالے۔ تھانے گئے، ابتدائی رپورٹ درج کرائی، اسپتال کا لیٹر لیا اور سرکاری اسپتال پہنچے تو وہاں کرم فرما ڈاکٹر نے راقم کو کانا پھوسی کرتے ہوئے مفید مشورے سے نوازا کہ اگر میں بھائی کی ایک چھوٹی انگلی کی ہڈی توڑ دوں تو مجھے 32L کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا جو فریق ثانی کو تگنی کا ناچ نچادے گا۔ اور ضمانت بھی مشکل سے ہوگی۔ سبق سکھانے کا یہ طریقہ کچھ تکلیف دے ضرور ہے مگر نمٹنے کا قانون کے ہتھیار سے یہ بہترین طریقہ اور موقع ہے۔ اپنے ہاتھ سے اپنی ہڈی توڑ دو۔ اور پھر دیکھو کہ کیا ہوتا ہے۔ ہم میں تو یہ حوصلہ نہ ہوا اور ہم تو لوٹ آئے مگر اب پی ٹی آئی نے پتا
نہیں کس ڈاکٹر کے اشارے پر اپنے جسد پر توڑ پھوڑ کی کارروائی کرکے اس خود کردہ گناہ کا شکار ہوگئی کہ اب راہ فرار نہیں اس نے اس ہڈی کو توڑا جو ریڑھ کی ہڈی ریاست کے تحفظ کی کہلاتی ہے۔ جس کے ٹوٹنے سے مملکت مفلوج اور ترنوالہ ہوجاتی ہے۔ جس نے ہڈی توڑنے کا مشورہ دیا وہ سجن نہ تھا اور یوں اب اپنی پارٹی ہی کی نہیں بلکہ کمانڈر تک کی جان ہتھیلی میں آگئی۔ فوجی عدالتیں جو جمہوری حکومت کا کارنامہ ہے اس کے قیام کی جماعت اسلامی اور آصف علی زرداری نے مخالفت کی تھی مگر نہ مانی گئی، اُس پنجرے میں پی ٹی آئی آگئی اب کڑے فیصلے پر نہ داد ہوگی نہ فریاد! فیصلہ سوچ سمجھ کر اور قوم محتاط ہو کر اُٹھانے کی بات بڑے کرتے آئے ہیں نادان دوست یوں ہی پھنساتے آئے ہیں۔