عمران خان: آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلے گا؟

632

آج کل ٹی وی کے مختلف ٹاک شوز میں یہ بحث بڑے زور شور سے چھڑی ہوئی ہے کہ کیا عمران خان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلے گا۔ فی الحال اس کا حتمی فیصلہ تو نہیں ہوا ہے لیکن 9مئی کو جو کچھ ہوا ہر طرف سے اس کی مذمت ہورہی ہے، تحریک انصاف کے اندر بہت زبردست پھوٹ پر چکی ہے کچھ اعلیٰ قیادت اور کچھ نچلی سطح کے کارکنان پارٹی کو خیر باد کہہ رہے ہیں، پورے ملک میں فوجی تنصیبات پر اس طرح کی کارروائی یا توڑ پھوڑ ہوئی ہے اس نے ریاستی اداروں پر، حکومت وقت پر، تحریک انصاف پر، پی ڈی ایم پر اور ہماری انتظامیہ پر کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ یہ ایک حساس موضوع ہے جس پر کچھ اظہار خیال کرتے ہوئے بھی بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ ایک تو ہوتا ہے منظر اور ایک ہوتا ہے پس منظر۔ منظر میں جو کچھ ہوتا ہے اسے ہم منظرنامہ بھی کہہ سکتے ہیں وہ تو سب کو نظر آتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں جو کچھ حساس تنصیبات پر ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا توڑ پھوڑ کرنے والے بھی نظر آرہے تھے جو چیز توڑی جارہی تھی وہ بھی سامنے تھی اور جو ان کو اکسانے والے، شاباشی دینے والے لیڈران تھے وہ بھی کیمروں کی آنکھوں سے چھپے ہوئے نہ تھے اب ان مناظر کے بارے میں لکھا جائے تو کوئی اتنی خطرے والی بات نہیں ہوگی البتہ اس سانحے کے پس منظر میں ہم ان چیزوں کو تلاش کرنے جائیں گے جو اس سانحے کا سبب بنے تو کچھ اندازوں سے بات ہوگی کچھ باخبر صحافیوں کی اپنی معلومات کے حوالے سے بات ہوگی کچھ ادھر ادھر سے کچی پکی اطلاعات حاصل کی جائیں گی اور ان پر اپنے تجزیے کیے جائیں گے بس اسی وجہ سے ملک کے باخبر صحافی آزمائشوں کی چکی میں پس کر رہ جاتے ہیں جیسے کہ آج کل معروف صحافی اور تجزیہ نگار عمران ریاض غائب ہیں اور ان کا کچھ اتا پتا نہیں چل رہا ہے۔

نو مئی کو پورے ملک میں مختلف حساس مقامات پر جو حملہ ہوا اور شرپسندوں نے ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے جو توڑ پھوڑ کی اس حوالے سے میرے جیسے ایک عام پاکستانی کے ذہن میں اپنے ریاستی اداروں کے لیے ایک اہم سوال بنتا ہے کہ ان مقامات پر ہماری سیکورٹی کا حال اور معیارکیا تھا ہم تو بچپن سے یہ دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ ملک میں جہاں کہیں حساس تنصیبات ہوتی ہیں تو اس کے چاروں طرف کئی فرلانگ کے فاصلے سے حفاظتی حصار بنائے جاتے ہیں۔ اب سے تقریباً پچاس ساٹھ سال قبل کی بات ہے ہمارے ایک دوست ماڑی پور میں سائیکل پر کہیں جارہے تھے وہ کسی ایسی سڑک پر داخل ہوگئے جہاں عام لوگوں کا جانا ممنوع تھا وہ شاید علاقہ ممنوعProhibitted Area کا بورڈ نہیں دیکھ سکے، تھوڑی دور گئے تو ایک باوردی سپاہی نے انہیں روک لیا کئی سوالات کیے کہاں سے آئے ہو، کہاں جارہے ہو، کہاں رہتے ہو اور بھی سوالات کیے پھر ان سے کہا کہ سامنے خیمے میں چلے جائو وہاں دیگر باوردی لوگ چائے بسکٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے انہوں نے جاکر انہیں پرجوش انداز میں سلام کیا وہ یہ سمجھے کہ باہر جو سپاہی ہے یہ ان کے کوئی مہمان ہیں ان لوگوں نے ان کی بھی چائے بسکٹ سے خاطر مدارات کی یہ کچھ دیر بیٹھے پھر خیمے سے نکلے اور سائیکل اٹھا کر دوسرے راستے سے چلے آئے وہ بتاتے ہیں کہ دو تین سال تک ہماری انکوائری ہوتی رہی پولیس اور دیگر سادہ لباس میں سرکاری اہلکار محلے میں میرے بارے میں پوچھ گچھ کرتے محلے والے ہمیں بتاتے کہ آج بھی آپ کو کچھ لوگ پوچھنے آئے تھے ہم ایک طرح سے ذہنی اذیت کا شکار ہو گئے میں نے والد صاحب سے ذکر کیا وہ بھی پریشان ہوئے اور کہا کہ تم ایسے ہی الٹے سیدھے کام کرتے رہتے ہو ان کے ایک دوست اسی طرح کے کسی ادارے میں ملازم تھے اور اکثر والد صاحب سے ملنے دکان پر آتے تھے والد صاحب نے ان سے میرے واقع کا ذکر کیا تفصیل بتائی اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح آئے دن پولیس کے لوگ انکوائری کے لیے محلے میں آتے رہتے ہیں والد صاحب کے وہ دوست اسی محکمے میں تھے انہوں نے بتایا کہ اتفاق سے یہ کیس میرے ہی پاس ہے میں اسے کلوز کردیتا ہوں اب کوئی نہیں آئے گا، پھر انہوں نے کہا کہ اگر وہ خیمے سے نکل کر نہ جاتا تو دس پندرہ برس کے لیے غائب ہوجانا کوئی غیر معمولی بات نہ ہوتی۔

اگر غلطی سے کسی حساس مقام کے پاس سے گزرجانے پر یہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے کہ سخت سیکورٹی کی وجہ سے وہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا تو پھر عام پاکستانی کا یہ سوال تو بنتا ہے کہ 9مئی کو ان حساس مقامات کی سیکورٹی کہاں تھی حکومت اور پنجاب اور کے پی کے کے قائم مقام گورنروں سے بھی یہ اہم سوال تو بنتا ہے کئی گھنٹوں تک دہشت گرد اپنی کارروائیاں کرتے رہے آپ کی پولیس کہاں تھی ہنگامہ کرنے والوں کے ہاتھ میں تو زیادہ تر ڈنڈے تھے آپ کی پولیس جدید ہتھیاروں سے لیس نہ بھی ہوتی اگر اس کے ہاتھ میں خالی ڈنڈے ہی ہوتے تو بھی کسی حد تک مشتعل مجمع کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔ پی ڈی ایم بھی چاہتی تو اپنے وزیر اعظم کو کہہ سکتی تھی کہ یہ اچھا موقع ہے اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں اچھے بچے بننے کا، کہ اس ہڑبونگ پر قابو پایا جائے۔ لیکن وہ شروع میں تو کچھ کنفیوز نظر آئے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں کچھ دن گھبرائے ہوئے بھی نظر آئے کہ پی ٹی آئی کتنی خطرناک بنتی جارہی ہے لیکن پھر جس طرح سے پانسہ پلٹا ہے اب ملک کے تمام شعبوں اور حلقوں کی طرف اس سانحے کی مذمت کی جارہی ہے اور جس طرح سے پی ٹی آئی کا گراف نیچے آیا ہے اس سے اب پی ڈی ایم والے اندر سے بہت خوش ہیں اور یہ خوشی ان کی بڑھتی جارہی ہے کہ اب اس سانحے کے سہولت کار، ہدایت کار، ذمہ دار اور ماسٹر مائنڈ پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا اس کے لیے تین فوجی عدالتیں صوبہ پنجاب میں اور دو صوبہ کے پی کے میں بن چکی ہیں پی ڈی ایم والوں کی خواہش ہے کہ عمران خان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے تاکہ یہ ایک طویل عرصے کے لیے منظر سیاست سے غائب ہو جائیں دوسری طرف پی ٹی آئی یعنی عمران خان شروع میں تو نو مئی کے واقعات پر اندر سے خوش تھے اور عدالت کے اندر یہ بیان بھی دے ڈالا کہ اگر دوبارہ گرفتار کیا گیا تو اس سے زیادہ شدید ردعمل آئے گا لیکن پھر ایک ہفتے تک پورے ملک میں اس واقع کا جو شدید ردعمل آیا اس نے عمران خان کو بھی مذمت کرنے پر مجبور کردیا اب وہ اندر سے خوف زدہ ہیں عدلیہ تو ان کی پشت پر ہے ہی اب وہ امریکا سے بھی مدد مانگ رہے ہیں کہ انہیں آنے والے خطرات سے بچایا جائے۔ مجھ جیسا عام پاکستانی تو بہت پریشان ہے کہ اگر تحریک انصاف نے اس کی منصوبہ بندی کی تھی تو ان کو دنیا کی کون سی بڑی قوت کی آشیر باد حاصل تھی دوسری پریشانی یہ ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک بالخصوص ہمارے مخالف ملکوں کی طرف سے یا اقوام متحدہ کی طرف سے یہ بات سامنے نہ آجائے کہ پاکستان میں جب حساس تنصیبات محفوظ نہیں ہیں تو پھر ان کا ایٹمی پروگرام یا ایٹم بم کیونکر محفوظ ہو سکتا ہے لہٰذا پاکستان کے ایٹم بم کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دیا جائے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔ ہم پی ڈی ایم کے سامنے یہ گزارشات رکھیں گے کہ وہ ذاتی مخاصمت سے بالا تر ہو کر سوچیں اور عمران خان پر فوجی عدالتوں مقدمات نہ چلائیں ہماری اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے انہیں جو غیر معمولی ریلیف مل رہا ہے یہ چند ماہ کی بات ہے۔ ویسے وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان آیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات نہیں چلائیں جائیں گے ہماری سول عدالتیں ہی ان مقدمات کو سنیں گی۔