ہَوا کا رُخ موڑنے کی کوشش ذلّت سے دوچار کرے گی

948

۱۹۷۱ء میں ہَوا کا رُخ موڑنے کی کوشش جب جرنیلوں نے کی تھی تب سانحہ مشرقی پاکستان ہُوا تھا اور ہزارہا پاکستانی فوجی ذلّت سے دوچار ہوئے تھے۔ ایسی ہی کوشش پھر کی جارہی ہے اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کی جانی چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹّو فوجی جرنیلوں کے اندر اتنا گھل مل گئے تھے کہ سب سے بڑے جرنیل نے اپنی ٹوپی اُتار کر اُن کے سر پر ڈال دی اور اُن کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہونے کا اعلان کردیا۔ موجودہ وزیر ِاعظم بھی اُسی طرح کا کھیل کھیلتے ہوئے نظر آرہے نظر آرہے ہیں اُن کو شاید یہ یاد کروانے کی ضرورت ہے کہ اُس وقت کے جرنیلوں نے یہ اقدام خوش ہوکر نہیں کیا تھا‘ وہ ایک شاطرانہ چال تھی جو بھٹّو چلنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور پاکستان کے سربراہ بن گئے تھے۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ بھٹّو مرحوم کی چال اُن کو دوہری مات دے گئی‘ ایک تو یہ کہ وہ اقتدار سے ذلّت کے ساتھ محروم کردیے گئے اور اُن کی دوسری منزل کا بیان کرتے ہوئے کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔
وزیر ِاعظم شہباز شریف نے اگرچہ مارشل لا کی ٹوپی پہن رکھنے کا دعویٰ تو نہیں کیا ہے لیکن اُن کا عمل اور اُن کا لب و لہجہ ایسا ہی کچھ منظر دکھلا رہا ہے۔ معروف شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز نے یہ شعر شاید اُنہی کی مدحت میں کہا ہے:
رکھنا ہے کہیں پاؤں، تو رکھو ہو کہیں پاؤں
تم کیا ہو، تم ہی سب سے کہلوائے چلو ہو
امیر ِ جماعت ِ اسلامی محترم سراج اُلحق اور عمران خان دونوں ہی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حالیہ بحران کو ختم کرنے اور گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے بہت ضروری ہے کہ فی الفور قومی انتخابات کا انعقاد کروادیا جائے۔ سراج اُلحق یہ بات اپنی طبیعت کے مطابق دھیمے انداز میں کر رہے ہیں جبکہ عمران خان کے مطالبے میں شدّت ہے۔ اِس میں بھی کچھ شک نہیں ہے کہ عمران خان کے ساتھ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے جو اپنے اِس مطالبے کو حق جان کر مرنے اور مارنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ فوج میں بھی بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور دو ایک جنرلوں سمیت کچھ افسران نے عوامی مظاہروں کو روکنے سے انکار کردیا ہے۔ آئی ایس پی آر اگرچہ اِس خبر کو محض افواہ قرار دے رہا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے سابق جنرل باجوہ کا کردار اور آئی ایس پی آر کی صفائیوں کی ساری گنجلک اب دُور ہوچکی ہیں۔ وہاگہ بارڈر پر سرِشام رچانے والے تماشے دیکھ کر بعض مسخرے کہتے ہیں کہ بھارتیوں کو ہم جو آنکھیں دکھلاتے ہیں‘ وہ آنکھیں گرگٹ کی ہوتی ہیں کہ شیر کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ مَیں اُس کی بات سن کے مسکرا دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ گرگٹ کی آنکھوں میں کوئی کمال نہیں ہے‘ اُس کی کھال میں کمال ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی رنگ کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ بھارتی وزیر ِاعظم نریندر مُودی کی پاکستان آمد پر پی ٹی وی کے نمائندے سہیل اختر باجوہ نے فلم بندی کی اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے مُودی کو سیلوٹ کیا۔ ہمارے جرنیل بڑے صاف دل لوگ ہیں اور اخلاق کے بہت اچھے ہیں‘ کشمیر کا معاملہ ہو یا مشرقی پاکستان کا سانحہ ہو‘ کسی بھی ہندی رہنما کو دیکھ کر اُن کے زخم ہرے نہیں ہوتے ہیں۔ نوازشریف کے عہدِ حکومت میں واجپائی جب پاکستان آیا تھا تب مُودی کی طرح اُس کا بھی بڑا والہانہ استقبال کیا گیا تھا اور واجپائی کی آمد پر کشمیری بھائیوں کے حق میں مظاہرے کرنے کے پاداش میں محترم قاضی حُسین احمد مرحوم کو توہین آمیز انداز میں گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا گیا پھر وہ وقت بھی آیا جب مُودی کے یار نوازشریف ذِلّت اٹھاکر ایوانِ حکومت سے رخصت کیے گئے۔ یہ بات کسی مجذوب کی بڑ نہیں ہے کہ ’فوج فوج سے تو لڑ سکتی ہے لیکن فوج عوام سے نہیں لڑسکتی ہے۔